سپریم کورٹ نے آر اوز، ڈی آر اوز سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا

جمعہ 15 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو آج ہی انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔

جمعہ کوچیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ چیف الیکشن کمشنر کی ملاقات کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کی درخواست پر آراوز اور ڈی آراوز کی تعیناتی کو کالعدم قرار دیے جانے کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سجیل سواتی ایڈووکیٹ کے ذریعے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔

مزید پڑھیں

چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصورعلی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اپیل پر سماعت مکمل کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردے دیا اور الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ وہ فوری انتخابی شیڈول جاری کرے۔

سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی کہ انتخابات کی تاریخ دی جائے جس پر اس عدالت نے فیصلہ جاری کیا تھا کہ 8 فروری کو انتخابات ہوں گے اور یہ واضح طور پر کہا گیا تھا کہ کسی کو بھی جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ آج انتخابی شیڈول کا اعلان کرنا تھا لیکن لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے یہ اعلان ممکن نہیں ہو سکا۔ سپریم کورٹ کے بینچ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے سامنے درخواست گزارعمیر نیازی اپنا تعلق اسی جماعت پی ٹی آئی سے بتاتا ہے جس نے سپریم کورٹ میں انتخابات کی تاریخ کے لیے درخواست دی تھی۔

عمیرنیازی خود کو بیرسٹر بتاتا ہے اور ہمیں توقع ہے کہ اسے پاکستانی قوانین کی سمجھ ہو گی، کسی کو جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے جج نے غیر ضروری جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، لاہور ہائی کورٹ کے سنگل جج اور عمیر نیازی دونوں نے سپریم کورٹ کے حکمنامے کی پروا نہیں کی، لاہور ہائی کورٹ عمیر نیازی کی درخواست پر مزید کوئی کارروائی نہیں کرے گی اوراس مقدمے کو سپریم کورٹ میں بھیجا جائے گا۔

لاہور ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ کے حکم نامے کی خلاف ورزی کی، فیصلہ

اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ عام طور پر دوسری پارٹی کو سنے بغیر حکم امتناعی جاری نہیں کرتی، لیکن چونکہ اس مقدمے میں سپریم کورٹ کے حکمنامے کی خلاف ورزی کی گئی ہے اس لیے حکم امتناعی  جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو حکم دیتے ہیں بغیر کسی تاخیر کے اپنی آئینی ذمہ داریوں پرعمل درآمد کرے۔

عدالت نے سماعت مکمل کرتے ہوئے قرار دیا کہ عمیر نیازی کی درخواست بظاہر قابل سماعت نہیں تھی اس لیے عدالت الیکشن کمیشن کو حکم دیتی ہے کہ وہ آج ہی انتخابی شیڈول جاری کرے، فیصلے میں سپریم کورٹ نے عمیر نیازی اور چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹسز جاری کیے۔

سپریم کورٹ نے عمیر نیازی کو اظہارِ وجوہ نوٹس جاری کیا اور کہا کہ عمیر نیازی وضاحت کرے کیوں نہ اس کے خلاف توہیں عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی درخواست پر جاری سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں درخواست جمہوریت کو ڈی ریل اور عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی کوشش ہے، لاہور ہائی کورٹ کے جج نے یہ آرڈر جاری کر کے مس کنڈکٹ کا ارتکاب کیا ہے، سپریم کورٹ آرڈر جاری کر چکی تھی، ایسا نہیں کہ آپ گاؤن پہن کے کوئی بھی آرڈر جاری کر دیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کی درخواست پر آر اوز اور ڈی آر اوز کے تربیتی سلسلے کو روکے جانے کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سجیل سواتی ایڈووکیٹ کے ذریعے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔

چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربر اہی میں تین رکنی بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کی درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت کا آغاز کیا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عدالت سے اپیل کی کہ ریٹرننگ آفیسرز (آر اوز) اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز( ڈی آراوز) کی معطلی کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کا کالعدم قرار دیا جائے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی سے سوال کیا کہ آپ نے الیکشن 8 فروری کو کرانے تھے، اتنی کیا جلدی ہو گئی؟

کوشش کیوں، الیکشن ہر حال میں ہوں گے، جسٹس طارق مسعود کا سیکرٹری ای سی پی کو جواب

اس پر سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن شیڈول جاری کرنے میں وقت بہت کم ہے، الیکشن کمیشن کی کوشش ہے کہ الیکشن مقررہ وقت پر ہی کرائے جائیں۔ اس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کوشش کیوں؟ آپ نے تو الیکشن ہر حال میں کرانے ہیں۔

سجیل سواتی نے عدالت سے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کے عمیر نیازی نے درخواست دائر کی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عمیر نیازی کی درخواست انفرادی ہے یا پارٹی کی جانب سے دی گئی ہے؟۔

سجیل سواتی نے کہا کہ ظاہر ہے عمیر نیازی پی ٹی آئی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل ہیں اس لیے یہ درخواست بھی پارٹی کی سطح پر ہی دی گئی ہے۔

سجیل سواتی نے کہا کہ عمیر نیازی نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ انتظامی عہدوں پر فائز آفیسران کی تعیناتی صاف و شفاف انتخابات پر سوالیہ نشان ہو گا اس لیے آر اوز اور ڈی آراوز کی تعیناتی کو کالعدم قرار دیا جائے۔ لاہور ہائیکورٹ میں الیکشن ایکٹ کی دفعہ 50 اور 51 چیلنج کی گئی ہے۔ سجیل سواتی نے مزید کہا کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسران کی فہرست حکومت دیتی ہے۔

جج صاحبان نے سوال کیا کہ لاہور ہائیکورٹ میں درخواست گزار کیا چاہتے ہیں۔ جس پر سجیل سواتی کا کہنا تھا کہ درخواست گزار چاہتے ہیں کہ ریٹرننگ افسران عدلیہ سے لیے جائیں، انتظامیہ سے نہ لیے جائیں۔ درخواست گزار کہتے ہیں کہ انتظامیہ افسران کی آر اور تعیناتی ہمیشہ کے لیے ختم کی جائے۔

سجیل سواتی نے عدالت کو بتایا کہ درخواست میں استد عا کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن کو عدلیہ سے آراوز لینے کی ہدایت کی جائے۔ اس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ یہ شق تو کبھی بھی چیلنج کی جا سکتی تھی، اس وقت ہی کیوں چیلنج کی گئی۔

سجیل سواتی نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے لاہور ہائی کورٹ میں کہا کہ ہمیں آر اوز منظور نہیں کیونکہ یہ انتظامی مشینری سے ہیں اور متعصب ہیں،اس پر سردار طارق مسعود نے کہا ہے کہ’ کون ہے جو الیکشن نہیں کروانا چاہ رہا؟’ جب کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ’ پھر جج صاحب خود ہی الیکشن کروا لیں؛ حیرت ہے اس طرح کے آرڈر پاس ہو رہے ہیں،۔اگر عدالتی عملے سے آر اوز لیے جائیں تو وہ کہہ دیں گے کہ یہ بھی ہمیں منظور نہیں۔

جسٹس طارق مسعود نے سجیل سواتی سے سوال کیا کہ آپ نے الیکشن عملے کی تربیت کیوں روکی؟ اس پر سجیل سواتی نے کہا کہ نوٹیفیکیشن معطل ہو گیا تھا، جس پر جسٹس طارق مسعود نے پھر کہا کہ نوٹیفیکیشن معطل ہوا تھا، تربیت کیوں معطل کی گئی۔

لاہور ہائیکورٹ کے جج نے مس کنڈکٹ کا ارتکاب کیا، چیف جسٹس

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ’لاہور ہائی کورٹ کے جج نے یہ آرڈر جاری کر کے مس کنڈکٹ کا ارتکاب کیا ہے، جبکہ سپریم کورٹ آرڈر جاری کر چکی تھی، ایسا نہیں کہ آپ گاؤن پہن کے کوئی بھی آرڈر جاری کر دیں، اٹارنی جنرل کیا یہ جج کا مس کنڈکٹ ہے؟

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ہم نے پی ٹی آئی کی درخواست پر انتخابات کا آرڈر جاری کیا تھا، یہ عمیر نیازی بھی مبینہ طور پر پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہا ہے۔ جب کہ یہ وہی جج ہے جس نے بجلی کے بلوں کے بارے میں آرڑر جاری کیا تھا، اس نے ہمارے آرڈر کی پروا نہیں کی۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہم ایک ایسے شخص کو ریلیف کیوں دیں جو توہین عدالت کر رہا ہے، جس نے پورے پاکستان کو یرغمال بنا رکھا ہے، چیک کریں یہ عمیر نیازی وکیل بھی ہیں یا نہیں؟

جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ ’اگر عدالتی عملے کی تعیناتی کو خلاف آئین قرار دے دیں تو انتخابات کا انعقاد ممکن ہی نہیں اس پر سجیل سواتی نے کہا کہ ان لوگوں کو لگتا ہے کہ ڈیڑھ ہزار بندہ ہی متعصب ہے۔

جسٹس طارق مسعود نے مزید کہا کہ اگر کسی کو آر اوزکے تعصب سے متعلق شکایت ہو تو کیا وہ الیکشن کمیشن کے پاس آ سکتا ہے؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ جی وہ آ سکتا ہے، لیکن یہ لوگ ہمارے پاس نہیں آئے۔

یہ وہی جج ہے جس نے بجلی بلوں میں ریاست کو نقصان پہنچایا؟، چیف جسٹس

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ ’ لاہور ہائیکورٹ کے اسی جج نے بجلی کے بلوں والے مقدمے میں ریاست کو کتنا نقصان پہنچایا؟ اور اس معاملے میں بھی انہوں نے نیپرا کو بائی پاس کر کے آرڈر جاری کیا تھا۔ چیف جسٹس کے پوچھنے پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مذکورہ جج کے فیصلے سے تقریباً 5 سو ارب کا نقصان پہنچا۔

عدالت کے پوچھنے پر سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان نے کہا کہ الیکشن کمشنر نے انتخابی عملے کی تربیت کے بعد الیکشن شیڈول جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے پوچھا کہ آپ نے پھر الیکشن شیڈول جاری کیوں نہیں کیا۔

اس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ یہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ عملے کی تربیت کے بعد الیکشن شیڈول جاری کریں گے۔ عملے کی تربیت آپ نے بلاوجہ روکی ہے، آپ تربیت تو جاری رکھتے کیا آپ بھی چاہتے ہیں کہ الیکشن نہ ہوں؟

پی ٹی آئی کی خاتون وکیل کی سرزنش

سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کی خاتون وکیل کی جانب سے عدالتی آرڈر کی ڈکٹیشن کے دوران مداخلت پرچیف جسٹس شدید برہم ہو گئے۔

چیف جسٹس نے کہا کیا آپ وکیل ہیں؟ کہاں سے پڑھ کرآئی ہیں، سپریم کورٹ آرڈرلکھوا رہی ہے اور آپ نے بیچ میں بولنا شروع کردیا، آپ کواس عدالت کی کوئی عزت نہیں، اگر دوبارہ مداخلت کی تو توہین عدالت لگا دیں گے، سب سے پچھلی نشستوں پرجا کر بیٹھیں۔ اس دوران اٹارنی جنرل بھی بول پڑے اور کہا کہ یہ سپریم کورٹ کی وکیل نہیں ہیں۔

سوموار سے انتخابی عملے کی تربیت دوبارہ شروع کر دیں گے، الیکشن کمیشن

جسٹس صاحبان کے ریمارکس کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے عدالت کو یقین دلایا کہ ہم سوموار کو انتخابی عملے کی تربیت دوبارہ شروع کر دیں گے۔

الیکشن کمیشن کے خط میں کسی ناخوشگوار صورتحال کی ذمہ داری وزارت داخلہ پر عائد کی گئی ہے (فائل فوٹو)

واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں ہنگامی سماعت سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف الیکشن کمشنرسلطان سکندر راجا کے درمیان ملاقات میں جسٹس سردار طارق، جسٹس اعجاز الاحسن اور اٹارنی جنرل بھی شریک رہے جب کہ اٹارنی جنرل کو بھی ہنگامی بنیادوں پر سپریم کورٹ بلایا گیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سینیئر ججوں سے الیکشن کے معاملے پر مشاورت بھی کی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے طے شدہ شیڈول کے مطابق اگر ملک بھر میں عام انتخابات 8 فروری کو ہی کروانے ہیں تو پھر اسے جمعہ یا ہفتہ کو ہی شیڈول جاری کرنا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp