سرکاری ملازمین کو نوکریاں دینے کے معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان برہم ہوگئے، اور سرکاری ملازمین کے بچوں کو ترجیحی بنیادوں پر بھرتی کرنے پر سوالات اٹھا دیے۔
جنرل پوسٹ آفس اسلام آباد میں بھرتی سے متعلق کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی، جس پر سپریم کورٹ نے سرکاری ملازمین کے بچوں کو ترجیحی بنیادوں پر بھرتی کرنے پر سوالات اٹھا دیے اورساتھ ہی عدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس بھی جاری کردیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا وزیراعظم کے پاس یہ اختیار ہے کہ خود سے پالیسی تبدیل کرے؟ سرکاری ملازمین کے بچوں کو ترجیحی بنیادوں پر نوکری دینے کی خیراتی پالیسیاں کیوں بنائی جاتی ہیں؟
مزید پڑھیں
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسطرح کی پالیسی بناکرآئین کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔ انہوں نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب ہو کر کہا کہ ہمت پکڑیں اور وزیراعظم کو لکھیں کہ یہ پالیسی غلط ہے۔
قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ ترجیحی بنیادوں پرصرف سرکاری ملازمین کے بچوں کو نوکری کیوں ملے؟ کیا باقی بچے پاکستانی نہیں ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ پالیسی سابقہ حکومت کے دور میں بنی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ پھر کہہ دیں نا کہ سابقہ حکومت آئین سے بالا ترتھی، ایسی پالیسی کو اٹھا کر باہر پھینک دینا چاہیے۔ آئین ہر چیز سے بالا تر ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس معاملے پر حکومت سے ہدایات لینے کی استدعا کی، جس پر عدالت نے ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہم اٹارنی جنرل کو طلب کرتے ہیں۔
واضح رہے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔