پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے اور انتخابی نشان بلا واپس لینے سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف کیس میں پشاور ہائیکورٹ نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا اور کچھ دیر بعد فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی کے بلے کا نشان واپس بحال کر دیا۔
تحریری فیصلہ
پشاور ہائیکورٹ نے 2 صفحات پر مبنی کیس کا تحریری فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیرقانونی ہے، الیکشن کمیشن کے پاس فیصلے کا اختیار نہیں تھا، الیکشن کمیشن پی ٹی آئی سرٹیفیکٹ ویب سائٹ پر جاری کرے، پی ٹی آئی بلے انتخابی نشان کی حقدار ہے۔
آج کی سماعت
پشاور ہائیکورٹ کے جج جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ارشد علی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کے وکلا کے دلائل کل مکمل ہوئے تھے۔ کیس میں الیکشن کمیشن سمیت 15 فریقین تھے۔ دیگر 14 میں سے 6 فریقین کے وکلا نے آج دلائل پیش کیے، 8 فریقین یا ان کے وکلا عدالت میں پیش نہ ہوسکے۔
آج سماعت کے لیے بیرسٹر علی ظفر اور دیگر پی ٹی آئی وکلا عدالت پہنچے۔ انصاف لائرز فورم کے ایک ترجمان نے بتایا کہ بیرسٹر گوہر خان اسلام آباد میں مصروفیات کے باعث آج عدالت نہیں آئیں گے، ہمارے دلائل مکمل ہوچکے ہیں، قانونی طور پر آج بیرسٹر گوہر کی ضرورت نہیں۔
عدالت میں کیس کی سماعت شروع ہوئی تو فریق جہانگیر کے وکیل نوید اختر ایڈووکیٹ نے دلائل دیے کہ آج سپریم کورٹ میں بھی کیس لگا ہے، جس پر جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ یہ بات کل ختم ہوچکی ہے، انہوں نے بتایا وہ وہاں کیس نہیں کررہے، اگر کل یہ نہ بتایا ہوتا تو ہم پھر پرسوں کی تاریخ دیتے۔
صوابی ست تعلق رکھنے والے کیس کے فریق یوسف علی کے وکیل قاضی جواد نے اپنے دلائل میں کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے کیس کو خارج کیا ہے۔ جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا، ’وہ آرڈر آپ نے پڑھا ہے؟ اس میں کہا گیا ہے کہ کیس پشاور ہائیکورٹ میں ہے اس لیے مداخلت نہیں کرتے، کیا کوئی انتخابات بغیر نشان کے منعقد ہوئے؟‘
وکیل قاضی جواد نے جواب دیا کہ ماضی میں نان پارٹی انتخابات ہوئے، پارٹیز ختم بھی ہوئیں تو نئی بن گئی۔ جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے، ’دیکھ لیں، وہ مارشل لا کے دور میں ہوا ہے۔‘ وکیل قاضی جواد نے کہا، ’لیکن یہ سب ایک لیگل فریم کے اندر ہوا ہے۔‘
’کیا انہیں انتخابی نشان ملنا چاہیے؟‘
جسٹس اعجاز انور نے استفسار سوال کیا کہ اچھا آپ یہ بتائیں آپکی پارٹی ہے تو کیا ان کو انتخابی نشان ملنا چایئے۔ وکیل قاضی جواد نے دلائل دیے، ’میں رولز کی بات کرتا ہوں، جو قانون ہے وہی ہونا چاہئے۔‘
جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا، ’نہیں ویسے آپ کیا چاہتے ہیں، ان کے خلاف انتخابی نشان واپسی کی کارروائی ٹھیک ہے۔‘ قاضی جواد نے جواب دیا، ’میں تو قانون کی بالادستی کی بات کرتا ہوں قانون کے مطابق کارروائی کو سپورٹ کرتا ہوں، ان کو شوکاز نوٹسز دیے گئے، یہ ایک تسلسل ہے، یہ کوئی ایک دن میں نہیں ہوا۔‘
’یہ بلبلہ ابھی پھٹا ہے‘
کیس میں فریق کوہاٹ کے شاہ فہد کے دوسرے وکیل احمد فاروق بھی عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے دلائل میں کہا کہ یہ پارٹی جیسے ہی بنی وہیں سے لاڈلہ پن شروع ہوا۔ جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیے، ’آپ قانونی بات کریں، یہاں پر کبھی ایک اور کبھی دوسرا لاڈلہ بن جاتا ہے۔
وکیل احمد فاروق نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اپنے کارکنوں کو لیول پلینگ فیلڈ نہیں دیا، انٹرا پارٹی انتخابات کا اچانک بلبلہ اٹھا اور اعلان کیا گیا کہ کابینہ بن گئی۔ جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے، ’وہی بلبلہ ابھی پھٹا ہے۔‘ جسٹس اعجاز کے ان ریمارکس پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
وکیل احمد فاروق نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انتخابات آئین کے مطابق نہیں کرائے گئے، الیکشن کمیشن فیصلہ کے خلاف بھی سول کورٹ جانا چایئے تھا، الیکشن ایکٹ میں یہ لازمی نہیں کہ ہر بار انتخاباب میں وہی نشان ملے گا، اگر 2 جماعتیں ایک نشان مانگ لیں تو الیکشن کمیشن کو اختیار ہے، ماضی میں ایک جماعت کا انتخابی نشان چراغ سے جھونپڑی بن گیا اور بعد میں کچھ اور۔
’ آئین کے مطابق عہدیداروں کو منتخب نہیں کیا گیا‘
کیس میں فریق نورین فاروق اور راجہ طاہر کے وکیل میاں عزیز الدین نے اپنے دلائل میں کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن کو سرٹیفیکیٹ مجاز شخص نے جمع نہیں کرایا، جب فریقین کو معلوم ہوا تو عدالت میں کیس کردیا، عدالت نے کیس الیکشن کمیشن کے پاس بھیج دیا، اس کے بعد مجاز شخص کے ذریعے سرٹیفیکیٹ جمع کرایا گیا۔
چارسدہ سے تعلق رکھنے والے کیس کے فریق جہانگیر کے وکیل نوید اختر نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل پی ٹی آئی کے ضلعی صدر رہ چکے ہیں، ایک بیان پر انہیں پارٹی سے فارغ کیا گیا، آئین کے مطابق عہدیداروں کو منتخب نہیں کیا گیا جو کہ لازمی ہے، عہدیداروں کی تازہ ترین فہرست الیکشن کمیشن کو جمع کرانا ہوتی ہے، انتخابی نشان بھی سیاسی پارٹی کو اس کی کریڈیبلیٹی کے مطابق دیا جاتا ہے، پارٹی کے آئین اور ووٹر کے تحفظ کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
’انٹرا پارٹی انتخابات کیسے ہوئے؟‘
وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو جسٹس ارشد علی نے وکیل نوید اختر سے استفسار کیا کہ کیا انٹرا پارٹی انتخابات پر جرمانہ ہوسکتا ہے اور کیا الیکشن کمیشن نے یہ کارروائی کی ہے۔ نوید اختر ایڈووکیٹ نے جواب دیا، ’نہیں، الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ 215 کے تحت کارروائی کی۔‘
جسٹس ارشد علی نے سوال کیا کہ اس سکیشن میں تو انٹرا پارٹی انتخابات کی بات نہیں ہے، جس پر وکیل نے دلائل دیے کہ قانون کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات پارٹی آئین اور الیکشن ایکٹ کے مطابق ہونے چاہئیں، اس رو سے انٹرا پارٹی انتخابات خود بخود 215 سکشن میں آتے ہیں، میرے موکل نے پہلے انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کے لیے درخواست دی تھی۔
جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے، ’وہ بات تو ختم ہوگئی جب الیکشن کمیشن نے 20 دن کا وقت دیا تھا۔‘ وکیل نوید اختر نے کہا کہ انہوں نے اس پر بات کرنی ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کیسے ہوئے۔ جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے، ’نہیں آپ اس پر بات نہیں کرسکتے، ہم نے ان کو بھی اس پر نہیں سنا، الیکشن کیسے ہوا، یہ بات پھر شواہد پر جائے گی۔‘
’سب جماعتیں ایک ہی طرح کے لوگ چلاتے ہیں‘
نوید اختر ایڈووکیٹ نے دلائل دیے کہ ان کے مؤکل کی بات اہم ہے، جب سے یہ پارٹی بنی وہ تب سے اس میں شامل ہیں۔ جسٹس اعجاز انور نے سوال کیا کہ آپ کا مطلب ہے کہ وہ (مؤکل) نظریاتی ہے؟ وکیل نوید اختر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ متنازع انتخابات ہوئے، سب نے کہا قبول ہے قبول ہے، سب نے کہا کہ جو بانی چیئرمین کہیں گے، وہی ہوگا۔
جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ یہاں تو سب جماعتیں ایک ہی طرح کے لوگ چلاتے آرہے ہیں، صرف یہی اور ایک اور پارٹی ہے جو ورکر کو آگے آنے دے رہی ہے۔
وکیل نوید اختر کے دلائل مکمل ہوئے تو پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر ایک بار پھر روسٹرم پر آئے اور دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ اسلام آباد ہو یا پشاور ہائیکورٹ، کہیں بھی چینلج ہوسکتا ہے، انتخابات یہاں ہوئے اور سیکریٹری جنرل عمر ایوب کا تعلق بھی اس صوبے سے ہے، اس صوبے میں 2 بار اس پارٹی نے حکومت بھی کی ہے، پورے ملک کی مخصوص سیٹیں اس سے متاثر ہوں گی۔
’اس درخواست کو مسترد ہی ہونا ہے‘
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا جواب الجواب مکمل ہوا تو جسٹس ارشد علی نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا، ’آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215 میں انٹرا پارٹی انتخابات کا ذکر نہیں، یہ کارروائی آپ نے کیسے کی؟‘
وکیل سکندر مہمند نے جواب دیا کہ سیکشن 215 تب لاگو ہوتا ہے جب اختیار ہو، جس کا مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے، اس لیے اس درخواست کو مسترد ہی ہونا ہے، ایک سال دیا گیا، الیکشن نہیں کیا گیا، الیکشن ایکٹ اور پارٹی آئین کے مطابق انتخابات کرانا لازمی ہوتا ہے، اگر وقت پر انتخابات نہ کروائے تو جرمانہ ہوتا، یہاں تو آئین کے مطابق انعقاد ہی نہیں کیا گیا۔
وکیل سکندر مہمند نے دلائل مکمل کرنے کے بعد کہا، ’مائی لارڈ شاید میں نے آپ کے سوال کا جواب دے ہی دیا‘، جس پر جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے، ’یہ تشنگی باقی رہے گی‘۔ جسٹس اعجاز انور کے ان ریمارکس پر عدالت میں قہقہ میں بلند ہوا۔
بعد ازاں، پشاور ہائیکورٹ نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا جسے کچھ دیر بعد سنا دیا گیا۔
کل عدالت میں کیا ہوا تھا؟
گزشتہ روز وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں، اگر انٹرا پارٹی انتخابات نہ بھی کرائے جائیں تو الیکشن کمیشن کسی پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم نہیں کرسکتا، الیکشن کمیشن صرف ’ریکارڈ کیپر‘ ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ انتخابی نشان واپس لینا پارٹی کو تحلیل کرنے کے مترادف ہے، آئین اور الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیرقانونی وغیر آئینی ہے، کسی قانون میں الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہی نہیں، یہ اختیار شاید ہائیکورٹ کے پاس ہے۔ جسٹس ارشد علی نے ریمارکس دیے، ’نہیں ہمارے پاس بھی یہ اختیار نہیں ہے۔‘
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہمند نے اپنے دلائل میں کہا کہ لاہور ہائیکورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کا کیس لفظ بہ لفظ ایک ہے، لاہور ہائیکورٹ نے 3 وجوہات کی بنیاد پر کیس کو خارج کیا، پہلی وجہ یہ کہ کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، دوسری یہ کہ کیس پشاور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے اور تیسری وجہ یہ کہ کیس میں قانون کو براہ راست چیلنج ہی نہیں کیا گیا، ایک ریلیف کے لیے 2 عدالتوں سے رجوع نہیں کیا جا سکتا۔
سکندر مہمند نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن سمجھتا ہے کہ پی ٹی آئی نے صاف اور شفاف انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، 24 صحفات پر مشتمل درخواست میں صرف ایک پوائنٹ ہے کہ الیکشن کمیشن صرف ریکارڈ کیپر ہے، پی ٹی آئی نے کمیشن کے اختیار پر بات کی حالانکہ الیکشن کمیشن کے پاس انٹراپارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار ہے۔
انتخابی نشان کی واپسی اور بحالی
یاد رہے کہ 3 جنوری کو پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی نشان بلے کی بحالی کے خلاف دائر نظرثانی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں پی ٹی آئی سے انتخابی نشان بلا واپس لیتے ہوئے الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر کا فیصلہ بحال کر دیا تھا۔
اس سے قبل تحریک انصاف کی درخواست پر 26 دسمبر کو پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس کامران حیات میاں خیل پر مشتمل ایک رکنی بینج نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان واپس لینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کرکے بلے کے نشان کو بحال کیا تھا اور دیگر فریقن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 9جنوری تک ملتوی کی تھی۔