گزشتہ سال پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے پیش کردہ دستاویزات کے مطابق سپریم کورٹ کے ایک جج کی تنخواہ 15 لاکھ سے زیادہ جبکہ ریٹائرڈ جج کو اپنی تنخواہ کا 70 فیصد بطور پینشن ملتا ہے جس پر کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک ریٹائرڈ جج دوران ملازمت اپنے زیرِاستعمال سرکاری گاڑی کم قیمت میں خرید سکتا ہے۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ریفرنس پر حکم امتناع جاری کرنے کی درخواست مسترد کر دی تھی جس کے بعد جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے نا صرف سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنا جواب جمع کروایا بلکہ آج اپنے عہدے سے استعفیٰ بھی دے دیا۔
کیا جسٹس نقوی ریٹائرڈ جج تصور ہوں گے؟
سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائیوں کے نتیجے میں برطرف ہونے والے ججز کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں اور حالیہ سالوں میں صرف اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی ایک ایسے جج تھے جنہیں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے ذریعے برطرف کیا گیا۔ زیادہ تر جب بھی کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کا آغاز کیا جاتا ہے تو وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیتے ہیں جس کے بعد انہیں ریٹائرڈ جج تصور کیا جاتا ہے اور ان کو ریٹائرڈ جج کی ساری مراعات ملتی ہیں۔
Related Posts
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل ذوالفقار احمد بھٹہ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جسٹس مظاہر نقوی بھی اب ریٹائرڈ تصور ہوں گے اور وہ پینشن سمیت تمام مراعات کے حقدار ہوں گے۔
جسٹس نقوی کو کیا مراعات ملیں گی؟
گزشتہ برس آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا گیا کہ سپریم کورٹ ججز کی تنخواہیں 15 لاکھ روپے سے زیادہ ہیں۔ سپریم کورٹ ججز آرڈر 1997 کے پیراگراف 16 کے مطابق سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کو ان کی تنخواہ کا 70 فیصد بطور پینشن ملتا ہے جس کا تعین صدر مملکت کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جتنے سال سروس کی ہو اس ایک سال کے لیے 5 فیصد پینشن بھی ملتی ہے لیکن پینشن کی شرح تنخواہ کے 85 فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔
سپریم کورٹ ججز آرڈر 1997 کے پیراگراف 25 کے مطابق سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کو 2 ملازمین جن میں ایک ڈرائیور اور ایک اردلی، 3 ہزار فری ٹیلی فون کالز، 2 ہزار یونٹس بجلی، 2500 کیوبک میٹر گیس، مفت واٹر سپلائی، 300 لیٹر پٹرول اور پولیس کی جانب سے ہر 8 گھنٹے کی شفٹ کے لیے ایک سیکیورٹی گارڈ کی سہولت ملتی ہے۔
چیف جسٹس کی ماہانہ تنخواہ وزیراعظم کی تنخواہ سے 750 فیصد زائد ہے
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے 3 اکتوبر 2023 کو وزارت خزانہ کو ایک خط لکھتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ انہوں نے گھر پر سولر سسٹم لگوایا ہوا ہے اس لیے ان کے 3 سال تک کے 2 ہزار یونٹس ماہانہ ان کے بجلی کے بل کی نیٹ مانیٹرنگ میں ایڈجسٹ کیے جائیں مگر وزارت خزانہ نے اس سے انکار کر دیا تھا۔
اعلیٰ عدلیہ ججز کی بہت زیادہ پینشنز کے خلاف درخواست
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک وکیل ذوالفقار احمد بھٹہ نے گزشتہ جنوری میں سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججز کے پینشن اور مراعات بہت زیادہ ہیں اور ملک کو درپیش معاشی مسائل کے پیش نظر ان کو کم کیا جائے لیکن رجسٹرار آفس نے وہ درخواست اعتراضات کے ساتھ واپس کر دی تھی کہ یہ مفاد عامہ کا کوئی مقدمہ نہیں۔ لیکن اس کے بعد انہوں نے ایک متفرق درخواست دائر کی تھی۔ ایڈووکیٹ بھٹہ نے بتایا کہ مذکورہ درخواست ابھی زیر سماعت ہے۔