وہ یہی ماہ تھا۔۔۔ جنوری کا۔
اور تاریخ بھی یہی تھی۔۔۔ 11۔
لیکن نہ سال یہ تھا۔۔۔ اور نہ ہی دن۔
بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی کا آٹھواں سال اور دن بُدھ کا تھا۔
اور دن کے کسی پہر وقت اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔
لندن کی جاڑے کی دھند اور کرسمس باکس کی باس میں لپٹی قدیم بستی میں ہلکی ہلکی بوندا باندی۔۔۔ کہیں کہیں برف باری اور کہیں یخ ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ اور اسی تاریخی شہر کے کسی کینسر کا علاج کرنے والے ہسپتال کے کسی کمرے کی کسی دِوار پر لگے کلاک اور بستر پر لیٹے ابنِ انشاء کی چوڑی کلائی پر بندھی گھڑی۔۔۔ دونوں کے دائروں میں بھاگتی سوئیاں۔۔۔ سست روی کا شکار ہو چلی تھیں۔۔۔ جنوری 1978ء سے 5 دہائیاں پہلے ہی تو جالندھر کی تحصیل پھلَور کے ایک گاؤں تھلّہ میں۔۔۔ راجستھان سے آ بسے ایک راجپوت منشی خان اور مریم کے گھر 15 جون 1927ء کو وہ پیدا ہوا تھا۔ والدین نے شیر محمد خاں کا نام دیا اور آج 50 سال 6 ماہ 26 دن بعد ایک بھرپور زندگی گزار کر سرائے عالم سے رخصت ہو رہا تھا۔
یہ سرائے ہے۔۔۔ یہاں کس کا ٹھکانا ڈھونڈو۔۔۔
یاں تو آتے ہیں مسافر۔۔۔ سو چلے جاتے ہیں۔۔۔
ہاں۔۔۔ یہی نام تھا۔۔۔ کچھ ایسا ہی چہرا مہرا۔۔۔
یاد پڑتا ہے کہ ۔۔۔ آیا تھا مسافر کوئی۔۔۔
سونے آنگن میں۔۔۔ پھرا کرتا تھا تنہا تنہا۔۔۔
کتنی گہری تھی ۔۔۔ نگاہوں کی اداسی اس کی۔۔۔
اے حمید ریڈیو پاکستان لاہور کے میرے دفتر آیا کرتے۔ اکثر ان سے ابنِ انشاء بارے بات ہو جاتی۔ ابنِ انشاء سے میرا تعارف بہت بچپن میں ہو گیا تھا۔ گھر میں خواتین ڈائجسٹ آیا کرتا جو کراچی سے ان کے بھائی سردار محمد نکالا کرتے۔ ہر جنوری کو اس جریدے کے ابتدائی صفحات ابنِ انشاء کے لئے مختص ہوتے جن میں اس کی نظمیں، غزلیں، کالم، سفرناموں کے ٹکڑے، اور بڑے لوگوں کے ابنِ انشاء کے بارے مضامین ہوتے۔ تب میری بڑی خواہش تھی کہ میں ابنِ انشاء سے ملوں۔ لیکن کیسے مل سکتا تھا۔ میرے اور اس کے بیچ زمان و مکان کا اتنا بُعد حائل تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ اے حمید سے ملاقات ہوئی تو دل خوشی سے بھر گیا۔ جب دل کرتا ان سے ابنِ انشاء بارے باتیں کرنی شروع کردیتا۔
’غربت کے دن تھے۔ ہم سب نئے نئے لاہور آئے تھے۔ میں امرت سر سے، ناصر کاظمی انبالے سے یہاں پڑھنے آیا تھا۔۔۔ گورنمنٹ کالج میں۔ پھر آزادی کے بعد یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ ایمن آباد میں جنما احمد بشیر سری نگر اور ممبئی سے ہوتا بٹوارے کے بعد لاہور ہی آ بسا۔ ممتاز مفتی بٹالے سے ہجرت کر آیا تھا۔ اشفاق احمد مکتسر اور بانو قدسیہ فیروز پور سے آئی اور گورنمنٹ کالج لاہور میں دونوں مل گئے۔ قدرت اللہ شہاب گلگت سے جُدا ہو مختلف شہروں اور پوسٹوں پر رہنے کے بعد پاکستان بننے کے بعد کراچی میں آ گئے اور امپورٹ ایکسپورٹ کی وزارت میں انڈر سیکریٹری لگ گئے ۔۔۔ اور منٹو بھی کراچی سے ہوتا ہوا لاہور آ گیا۔‘
ماضی کے سنہری دنوں کو یاد کرتے اے حمید کی آنکھیں میرے عقب میں لگی کھڑکی کے شیشوں سے باہر کہیں جھانکتی رہتیں اور ان پر پانی کی ایک ہلکی سی تہ نمودار ہو جاتی۔
’ لیہا ۔۔۔ سِغٹ پلا ۔۔۔(لاؤ ۔۔۔ سگرٹ پلاؤ) ۔۔ تے رحمت نوں کہہ کے چا ٔ بنائے ۔۔۔ تے چینی نہ پائے ۔۔۔ ریحانہ نے چینی بند کر دتی اے میری ۔۔۔ ( اور رحمت سے کہو کہ چائے بنائے ۔۔۔ اور چینی نہ ڈالے ۔۔۔ ریحانہ نے میری چینی بند کر دی ہے ۔۔۔)‘
’ اور ابنِ انشاء بارے کیا ۔۔۔ ‘ میری ساری دل چسپی ابنِ انشاء میں ۔۔۔ اس کے ذکر میں ہوتی ۔۔۔
’لدھیانے سے نکل کر ۔۔۔ دلی اور کراچی سے ہوتا ۔۔۔ وہ بھی لاہور ہی آگیا تھا ۔۔۔ اور پھر ہم تھے ۔۔۔ لاہور کی سڑکیں ۔۔۔ گلیاں ۔۔۔ اور بازار ۔۔۔ پاک ٹی ہاؤس ۔۔۔ انار کلی ۔۔۔ اور لکشمی چوک ۔۔۔ لیکن ٹھہرو ۔۔۔ اس سے پہلے بھی وہ لاہور آیا تھا ۔۔۔ تقسیم سے پہلے ۔۔۔ حمید نظامی کے ساتھ بذریعہ خط رابطے میں تھا ۔۔۔ ان کے کہنے پر لاہور آگیا ۔۔۔ اور اسلامیہ کالج میں گیارہویں میں داخل ہو گیا ۔۔۔ لیکن جلد ہی واپس چلا گیا تھا ۔۔۔‘
’ سنا ہے ریڈیو میں بھی کچھ کیا کرتے تھے ۔۔۔۔ ‘ میرا اپنا تعلق چونکہ ریڈیو سے تھا ۔۔۔ تو ابنِ انشاء سے یہ نسبت بھی میرے لئے اعزاز سے کم نہیں تھی ۔۔۔
ْ ہاں ۔۔۔ آل انڈٰیا ریڈیو کراچی میں خبریں ترجمہ کیا کرتا تھا ۔۔۔ ‘ اور میں یہ سن کر خوش ہوجاتا ۔۔۔
ان سبھوں میں سے ۔۔۔ سب سے پہلے منٹو ۔۔۔ سب سے کم عمری میں ان سب کو چھوڑ کر چلے گئے ۔۔۔ 1955ء میں۔۔ پھر ناصر کاظمی 1972ء میں ۔۔۔ اور ان کے بعد ۔۔۔ بقول منیر نیازی ۔۔۔ ایک لمبی چپ ۔۔۔ اور تیز ہوا کا شور ۔۔۔
ابنِ انشاء شروع سے ہی ابنِ انشاء نہیں تھا ۔۔۔ شیر محمد خاں نے اپنا پہلا قلمی نام شیر محمد اصغر رکھا تھا ۔۔ پھر کچھ عرصہ مایوس صحرائی ۔۔۔ عدم آبادی ۔۔۔ مایوس عدم آبادی ۔۔۔ قیصر ۔۔۔ اور پھر جلد ہی ابنِ انشاء کا تخلص مستقل کرلیا ۔۔۔ اگرچہ درویش دمشقی کے نام سے کالم بھی لکھے لیکن ابنِ انشاء کا تخلص ۔۔۔ اس کے اصل نام سے بہت آگے نکل گیا ۔۔۔
ابنِ انشاء کی شاعری اور نثر میں ۔۔۔ ان کے اسلوب اور مزاج اور کیفیت میں زمین آسمان کا تفاوت تھا ۔۔۔ اس کی نثر ۔۔۔ جتنی ظرافت ۔۔۔ شگفتگی ۔۔۔ مزاح ۔۔۔ اور طنز سے لبریز تھی ۔۔۔ اس کی شاعری اتنی ہی سنجیدہ ۔۔۔ المناک ۔۔۔ اور اداس کر دینے والی تھی ۔۔۔ ذکرِ غمِ جاناں نہ ہوتا تو ذکرِ غمِ دنیا ہوتا ۔۔۔۔ سماجی و معاشی نا ہمواریاں اسے دکھی کر دیتیں ۔۔۔ ترقی پسند تحریک سے وابستگی اور کارل مارکس کی تعلیمات سے متاثر تھا ۔۔۔ اپنی مشہور نظم ۔۔۔ ’ یہ بچہ ۔۔۔ کیسا بچہ ہے ۔۔۔‘ میں ابنِ انشاء انسانیت کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتا ہے ۔۔۔
یہ بچہ کیسا بچہ ہے ۔۔۔
جو ریت پہ تنہا بیٹھا ہے ۔۔۔
نہ اس کے پیٹ میں روٹی ہے ۔۔۔
نہ اس کے تن پر کپڑا ہے ۔۔۔
نہ اس کے سر پر ٹوپی ہے ۔۔۔
کہیں غلے کے انبار لگے ۔۔۔
سب گیہوں دھان مہیا ہے ۔۔۔
کہیں دولت کے صندوق بھرے ۔۔۔
ہاں تانبا سونا روپا ہے ۔۔۔
تم جو مانگو سو حاضر ہے ۔۔۔
اپنی نیشنل بک سینٹر اور اقوامِ متحدہ کی نوکری کے طفیل ابنِ انشاء نے ایک دنیا دیکھی ۔۔۔ اور اردو ادب کے بہترین سفر نامے تخلیق کیے ۔۔۔ آوارہ گرد کی ڈائری ۔۔۔ دنیا گول ہے ۔۔۔ ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں ۔۔۔ چلتے ہو تو چین کو چلئے ۔۔۔ اور نگری نگری پھرا مسافر ۔۔۔
اور آپ سے کیا پردہ کے نام سے لکھے کالم معاشرے پر با کمال طنز کے فن پارے ٹھہرے ۔۔۔ لیکن اس کی شاعری ۔۔۔ ایک بے بس ۔۔ بے کس محبت کرنے والے کی کسک لئے ہوئے تھی ۔۔۔ محبوب کے لئے اس نے چاند کا استعارہ چُنا ۔۔۔ کہ جسے دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔ اس کی کرنوں میں بیٹھ سکتے ہیں ۔۔۔ اس کی طلب کر سکتے ہیں ۔۔۔ اسے چاہ سکتے ہیں ۔۔۔لیکن اسے چھو نہیں سکتے ۔۔۔ اسے حاصل نہیں کر سکتے ۔۔۔ اسی لا حاصلگی کا اظہار اس کی شاعری میں جا بہ جا ملتا ہے ۔۔۔ طلب کی تڑپ ۔۔۔ نا رسائی کی چُبھن ۔۔۔ بے بسی کی منّت ۔۔۔ اور لاچارگی کا ترلا ۔۔۔ مطلب محبت میں کوئی انا نہیں ۔۔۔
’اک بار کہو ۔۔۔ تم ۔۔۔میری ہو ۔۔۔‘
’ کل ہم نے سپنا دیکھا ہے
جو اپنا ہو نہیں سکتا ہے
اس شخص کو اپنا دیکھا ہے‘
’ یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشاءؔ جی کا نام نہ لو کیا انشاءؔ جی سودائی ہیں‘
’سب مایا ہے ۔۔۔
سب ۔۔ ڈھلتی پھرتی چھایا ہے ۔۔۔‘
’ اس بستی کے اک کوچے میں ۔۔۔ اک انشاءؔ نام کا دیوانہ ۔۔۔
اک نار پہ جان کو ہار گیا ۔۔۔مشہور ہے اس کا افسانہ ۔۔۔‘
’ کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا ۔۔۔
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا ۔۔۔
اور سب سے ذیادہ مشہور غزل ۔۔۔ جسے سب سے پہلے استاد امانت علی نے گایا ۔۔۔ اور راتوں رات یہ غزل اور اس کی دھن لوگ گنگناتے پھرے ۔۔۔ جو آج بھی اتنی ہی دل کش و دل فریب ہے جتنی 1971ء میں تھی ۔۔۔
’ انشاءجی اٹھو ۔۔ اب کوچ کرو ۔۔۔اس شہر میں جی کو لگانا کیا ۔۔۔
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب ۔۔۔جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا ۔۔۔‘
اور ایسی بے شمار نظمیں ۔۔۔ غزلیں ۔۔ گیت ۔۔۔ جو چاند نگر ۔۔۔ اس بستی کے اک کوچے میں ۔۔۔ اور دلِ وحشی کے صفحات پر بکھری ہوئی ہیں ۔۔۔ ان میں سے ہر ایک کا تذکرہ ممکن ہی نہیں ۔۔۔ ابنِ انشاءءکی شاعری میں جو روانی تھی ۔۔۔ بہا ؤ تھا ۔۔۔ نغمگی تھی ۔۔۔ اثر تھا ۔۔۔ درد تھا ۔۔۔ تاثر تھا ۔۔۔ لطافت تھی ۔۔۔ موسیقیت تھی ۔۔۔ برجستگی تھی ۔۔۔ اور والہانہ پن تھا ۔۔۔ سب کا سب فطری تھا ۔۔۔ کہیں پر ۔۔ کسی بھی قسم کی بناوٹ ۔۔۔ تصنع ۔۔۔ جعلی پن ۔۔۔ تردد ۔۔۔ یا کوشش کا شائبہ تک نہ ہوتا ۔۔۔ اسی لئے اپنے اپنے وقت کے ہر گلوکار نے اسے گانے کی خواہش کی ۔۔۔ اور اسی ذوق اور شوق اور محبت کے ساتھ گایا ۔۔۔ جس کی توقع کی جا سکتی تھی ۔۔۔
آہ ۔۔۔ ابنِ انشاء۔۔۔
1970ء کی دہائی کے کسی سال ۔۔۔ اسے پتا چلا کہ اس کے لال خون میں موجود سفید خلیوں میں کوئی بگاڑ پیدا ہو گیا ہے ۔۔۔ بیماری جان لیوا تھی لیکن اس نے سجنی سے ملنا تھا ۔۔۔ اور ملنے کے لئے جینا ضروری ۔۔۔ جینے کی یہی خواہش اسے پہلے ٹوکیو لے گئی ۔۔۔ جہاں اس نے اپنی یاد گار نظم لکھی ۔۔۔
اب عمر کی نقدی ختم ہوئی ۔۔۔
اب ہم کو ۔۔۔ ادھار کی حاجت ہے ۔۔۔
ہے کوئی جو ساھو کار بنے ۔۔۔
ہے کوئی جو دیون ہار بنے ۔۔۔
ٹوکیو میں زندگی کے بڑھنے کی امید کم تھی ۔۔۔ وہ لندن چلا گیا ۔۔۔ سنا تھا وہاں کے کینسر کا علاج کرنے والے بہتر ہیں ۔۔۔ وہیں ایک روز قدرت اللہ شہاب آئے ملنے ۔۔۔ ان کے ساتھ چلبلی باتیں کرتے کرتے اچانک سنجیدہ ہوگیا ۔۔۔ بتانے لگا کہ اگر کسی ترکیب سے ۔۔۔ اسے دُبارہ زندگی ملی تو وہ اسے ۔۔۔ کیسے گزارے گا ۔۔۔ بقول شہاب ۔۔۔ اسکی تشنۂ تکمیل تمناؤں ۔۔۔ آرزوؤں ۔۔۔ اور امنگوں کی تفصیل اتنی طویل تھی کہ اسے سناتے سناتے آدھی رات بیت گئی ۔۔۔ لیکن یہ تو بس باتیں ہی ہوا کرتی ہیں ۔۔۔ زندگی میں سب کچھ دُبارہ ہو سکتا ہے ۔۔۔ لیکن زندگی نہیں ۔۔۔
بقول ممتاز مفتی ۔۔۔ جس سے محبت تھی ۔۔۔ اس کے بارے ۔۔۔ اپنے دوستوں سے کہا کرتا ۔۔۔
’ یار ۔۔۔ اسے کہو نا ۔۔۔ مجھ سے بات کرے ۔۔۔ لیکن یہ سیدھا ہی نہ کہہ دینا ۔۔۔ باتوں باتوں میں کہنا ۔۔۔‘
اور اسی حالتِ نا رسائی و نا گفتنی میں ۔۔۔ 1978ء کے جنوری کی گیارہ آ گئی تھی ۔۔۔۔
جی ہاں ۔۔۔ یہی ماہ ۔۔۔ اور یہی تاریخ ۔۔۔
لندن کی ۔۔۔ جاڑے کی دھند اور کرسمس باکس کی باس میں لپٹی قدیم بستی میں ۔۔۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی ۔۔۔ کہیں کہیں برف باری ۔۔۔ اور کہیں یخ ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ۔۔۔ اور اسی تاریخی شہر کے کسی کینسر کا علاج کرنے والے ہسپتال کے کسی کمرے کی کسی دِوار پر لگے کلاک ۔۔۔ اور بستر پر لیٹے ۔۔۔ ابنِ انشاء کی چوڑی کلائی پر بندھی گھڑی ۔۔۔ دونوں کے دائروں میں بھاگتی سوئیاں ۔۔۔ ایک ساتھ ۔۔۔ رک گئی تھیں ۔۔۔
وہ کہ جو دنیا میں۔۔۔ شیر محمد خاں کے نام سے آیا تھا ۔۔۔ ابنِ انشاء کے نام سے جانا گیا ۔۔۔ چاہا گیا ۔۔۔
مر گیا تھا ۔۔۔
اب کوئی آئے تو کہنا کہ ۔۔۔۔ مسافر تو گیا ۔۔۔
یہ بھی کہنا کہ ۔۔۔ بھلا ۔۔۔ اب بھی نہ جاتا لوگو ۔۔۔
کتنی اس شہر کے سخیوں کی ۔۔۔ سُنی تھیں باتیں ۔۔۔
ہم جو آئے ۔۔۔ تو کسی نے بھی ۔۔۔ نہ پوچھا لوگو ۔۔۔
۔۔۔ ابنِ انشاء ۔۔۔