نون لیگ سے ’ن‘ ہی کو نکال دیا

بدھ 14 فروری 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایسا کم ہی ہوتا ہے ایک سیاسی جماعت کا لیڈر وزیراعظم منتخب ہو جائے اور اسی سیاسی جماعت کی لیڈر سب سے بڑے صوبے  کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ منتخب ہونے جا رہی ہو اور اس سیاسی جماعت کے کارکن کامرانی کا جشن منانے کے بجائے دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہوں۔ ن لیگ کے کارکن، ہمدرد، واقفانِ حال اس جماعت کو ن لیگ کے نام سے جانتے مانتے اور پہچانتے تھے۔

سب کو انتخابات سے یہی توقع تھی کہ نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بنیں گے۔ جماعت کی طرف سے بھی یہی نعرہ لگایا گیا۔ اخبارات میں بھی یہی اشتہار شائع کیا گیا۔ حتیٰ کہ شیروانی کے شوقین شہباز شریف نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے اعلان سے پہلے آخری پریس کانفرنس میں بھی نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کا عزم دہرایا۔ لیکن بہت سے دھڑکتے دل جانتے تھے کہ اس ملک میں اتنا طاقتور وزیراعظم کسی کو قبول نہیں ہونا، اس ملک میں اتنا فہیم سیاستدان کسی کو درکار نہیں، یہاں کی سیاست میں گنڈا پور اور شہباز شریف درکار ہیں۔ یہاں نواز شریف جیسے لوگوں کا اب کوئی کام نہیں رہا۔ اب ان کا وقت بِیت گیا۔ مزاحمت، رواداری اور ذہانت کی سیاست کا ایک عہد گزر گیا۔ اب ہمارے پاس ایک تابناک ماضی کے سوا کچھ بھی نہیں۔

ایسا نہیں ہوا کہ نیلسن مینڈیلا نے صدارت کے 5 سال کامیابی سے مکمل کیے، پھولوں والی شرٹ پہنی اور افریقی موسیقی کی دھن پر رقص کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا، پورے ملک نے خراج تحسین پیش کیا اور نئی حکومت آ گئی۔

ایسا بھی نہیں ہوا کہ انضمام الحق نے کرکٹ کے میدان میں ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد جب آخری اننگز کھیلی تو سب کھلاڑیوں نے اپنے اپنے بلے فضا میں بلند کیے اور انکے سائے میں اس عظیم کھلاڑی کو میدان کرکٹ سے رخصت کیا۔

نواز شریف کے رخصت اس سے بہت مختلف رہی۔ یوں لگا جیسے ہم نے اس بڑے آدمی سے وفا نہیں کی۔

نواز شریف کا تعلق اس خاندان سے ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے۔ ان کے والد میاں شریف اس زمانے کے بڑے صنعت کار تھے جب آج کے زمانے کے امرا سائیکلوں پر پھرا کرتے تھے۔ اس زمانے میں اتفاق کا لوہا سب مانتے تھے۔ عرب ممالک کے سربراہان ان کی فیکٹری کا دورہ کیا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کو نیشنلائزیشن کا شوق چڑھا تو میاں شریف نے اپنے کاروبار کو بیرون ملک منتقل کر دیا۔ وہاں بھی کاروبار میں کامیابی حاصل ہوئی۔

سب سے پہلے نواز شریف پنجاب کے وزیر خزانہ بنے۔ پھر وزیر اعلیٰ کی سیڑھی پر چڑھے اور پھر 3 دفعہ وزارتِ عظمیٰ کے تخت پر براجمان ہوئے۔ نواز شریف کی سیاسی بلوغت کا آغاز 1993 سے ہوا۔ انہیں علم ہوا کہ کچھ مخفی ہاتھ سیاست دانوں کو بدنام کرتے ہیں اور ان کے دامن پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ کچیڑ اچھالنے والے پاک صاف رہتے ہیں اور سیاست دان گند میں لُتھڑ جاتے ہیں۔ نواز شریف تب سے مزاحمتی ہو گئے تھے۔

کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ نواز شریف کبھی نہیں چاہتے تھے کہ شہباز شریف سیاست میں آئیں۔ لیکن یہ ان کے والد کا حکم تھا جو انہوں نے کبھی نہیں ٹالا۔ شہباز شریف کے طرزِ سیاست کو جو مرضی کہیں لیکن ایک بات سچ ہے کہ انہوں نے نہ کبھی اپنے بھائی کو دھوکا دیا نہ کبھی انکی موجودگی میں اونچی آواز میں بات کی۔ سلمان شہباز اور حمزہ شہباز کے لیے بھی ساری عمر تایا ابو کی بات حکم کا درجہ رہی ہے۔ ہاں البتہ مریم نواز کمرے میں داخل ہوتی ہیں تو نواز شریف خود اُٹھ کر ان کا استقبال کرتے ہیں۔

جب تک نواز شریف کی والدہ حیات رہیں، نواز شریف ان کے ساتھ وقت گزارتے، ان سے باتیں کرتے، ان کے پاؤں دباتے اور کوشش کرتے کہ سب سے زیادہ دعا ان کو ملے۔

نواز شریف چاہتے تو عیش و آرام کی زندگی بہت مزے سے گزار سکتے تھے۔ وہ بہت پہلے زمانے کے ملک ریاض بن کر بریگیڈیئروں اور جرنیلوں سے چائے بنوا سکتے تھے، مگر انہوں نے زندگی کا دشوار راستہ چُنا۔ جب سے وزیر خزانہ بنے کوئی کاروبار نہیں کیا۔ تب ہی تو مشرف سے لیکر باجوہ تک، عمران خان سے لیکر شہزاد اکبر تک دہائیوں کرپشن کے ثبوت ڈھونٹے رہے مگر سوائے ایک ’اقامے‘ کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ بیٹے سے تنخواہ نہ لینا آخر جرم قرار پایا۔

خارزارِ سیاست میں نواز شریف نے بہت کشٹ کاٹے، کبھی طیارہ سازش کیس میں گرفتار رہے، کبھی کسی جرنل نے کنپٹی پر پستول رکھی، کبھی غلیظ میڈیا ٹرائل ہوا، ایام اسیری میں رفیق حیات دارِ فانی سے کوچ کرگئیں، والدہ کے انتقال کی روح فرسا خبر زندان خانے میں ملی، کبھی باپ کے جنازے کو کاندھا دینے کی اجازت نہیں ملی، کبھی جلاوطنی مقدر ٹھہری،  کبھی بیٹی کو باپ کے سامنے گرفتار کر لیا گیا، کبھی جیل میں اذیتیں دی گئیں، کبھی کرپشن کے الزامات لگائے گئے، کبھی ساتھیوں کو ٹکٹی پر چڑھا دیا گیا، مگر نواز شریف نے آئین کی حرمت پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہوں نے جب یہ کہا ’مجھے کیوں نکالا؟‘ یا جب ’ووٹ کو عزت دو‘ کو نعرہ بلند کیا، تو ہر بار مطالبہ ذات نہیں پاکستان میں پارلیمان کی بالادستی تھی۔

آج جب اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے نبرد آزما ہے، جو جنرل باجوہ کے زمانے کے راز کھول کھول کر چوک میں فوج کو رسوا کر رہے ہیں، تو یاد رکھیں  نواز شریف نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ سوچیں کارگل کے حوالے سے، ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے، بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے، جرنیلوں کی طمع کے حوالے سے، کتنے راز ان کے سینے میں دفن ہوں گے مگر ان میں سے ایک بھی راز آج تک ان کی زبان پر نہیں آیا۔ اس لیے کہ انہیں اپنی شہرت سے زیادہ اس وطن کی عزت پیاری رہی ہے۔

آج اعلان ہو گیا ہے نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم نہیں بنیں گے۔ ایک طاقتور وزیراعظم کسی کو قبول نہیں۔ اب نواز شریف کا عہد ختم ہو گیا۔ اب اس طرز کی سیاست کا دور گزر گیا۔

جانے مجھے کیوں لگتا ہے ہم سب نے، اس سماج نے، اس ملک نے نواز شریف سے وفا نہیں کی۔ وہ بڑا آدمی ہے اور اس سماج کی توقعات بڑی نہیں ہیں۔

یہ وقت گزر جائے گا مگر آنے والے زمانے  پاکستان کو کسی جرنیل کے نام سے نہیں  بلکہ ایک ایسے سیاستدان کے نام  جانیں گے جو نرم خو تھا، جو بستر مرگ پر پڑی اہلیہ کو آخری لمحے میں کہ رہا تھا ’آنکھیں کھولو‘۔ جس شخص نے شوکت خانم ہسپتال کے لیے زمین اور پچاس کروڑ روپے عطیہ دیا، وہ شخص جو  بدترین سیاسی دشمنی کے باوجود سب سے پہلے بے نظیر شہید کی میت کے پاس پہنچا۔ وہ مشرف جس نے نواز شریف کو بدترین انتقام کا نشانہ بنایا اسی کو بیماری میں وطن واپسی کی کھلے دل سے اجازت دی، اسی مشرف کے انتقال پر سب سے پہلے تعزیت کی۔ اپنے آپ کو گالیاں دینے والے عمران خان کی عیادت کرنے سب سے پہلے پہنچا۔ یہ شخص نہ جرنیلوں کی بندوقوں سے ڈرا ، نہ جیل کی سلاخوں سے، نہ جلاوطنی کی تکلیف سے، نہ اہلیہ کی موت کے غم سے۔ اس کو صرف آئین کی حرمت عزیز رہی، اور وہ آخری وقت تک ووٹ کی عزت کے مطالبے پر سختی سے ڈٹا رہا۔

’ن‘ میں سے ’ش‘ نکالنے والے تجزیہ کار جانے کیا سوچ رہے تھے کہ اچانک  ظالموں نے ن لیگ ہی سے ’ن‘ کو نکال باہر کیا۔ ناجانے کیوں مجھے خدائے سخن بے طرح یاد آرہے ہیں:

موسم آیا تو نخلِ دار میں میرؔ

سرِ منصور ہی کا بار آیا

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp