بھارت کی کلکتہ ہائیکورٹ نے مغربی بنگال کی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ سفاری پارک میں رکھے گئے ’اکبر‘ اور ’سیتا‘ نامی شیر اور شیرنی کے ناموں کو تبدیل کریں۔
مزید پڑھیں
بھارت میں انتہا پسند ہندو تنظیم ’وشوا ہندو پریشد‘ نے مغربی بنگال کے شہر سلی گوڑی کے سفاری پارک میں موجود شیر کا نام ’اکبر‘ اور شیرنی کا نام ’سیتا‘ رکھنے اور انھیں ایک ہی پنجرے میں رکھے جانے کے خلاف درخواست دائر کر رکھی تھی۔
وشوا ہندو پریشد کا کہنا تھا کہ شیروں کو مسلمان حکمران اور ہندو دیوی کا نام دیکر ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔
کلکتہ ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے مغربی بنگال کی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ تنازعہ سے بچنے کے لیے شیروں کے نام تبدیل کیے جائیں۔
جمعرات کو کیس کی سماعت کے دوران جسٹس سوگت بھٹاچاریہ نے ریمارکس دیے کہ کیا جانوروں کے نام دیوتاؤں، دیو مالائی کرداروں یا آزادی کے لیے لڑنے والوں کے ناموں پر رکھے جانے چاہئیں۔
انہوں نے کہا، ’ ’’آپ انہیں ’بجلی‘ یا اس طرح کے کوئی اور نام دے سکتے تھے، شیروں کو اکبر اور سیتا جیسے نام کیوں دیے گئے؟‘
جسٹس بھٹا چاریہ نے ریمارکس دیے دیے کہ آپ ایک ’فلاحی اور سیکولر ریاست‘ ہیں، اس طرح کے اقدامات کر کے کیوں تنازعہ پیدا کیا جا رہا ہے، شیروں کے لیے صرف ’سیتا‘ ہی نہیں بلکہ ’اکبر‘ نام بھی مناسب نہیں۔
واضح رہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والی ویشوا ہندو پریشد نے اپنی شکایت میں کہا تھا کہ اسے شیروں کے ناموں پر ملک کے تمام حصوں سے شکایات موصول ہوئی ہیں۔ سیتا بھگوان رام کی بیوی ہیں اوردنیا بھر کے تمام ہندوؤں کے لیے مقدس دیوی ہیں۔ اس طرح کا عمل توہین مذہب کے مترادف اور تمام ہندوؤں کے مذہبی عقائد پر براہ راست حملہ ہے۔
ویشوا ہندو پریشد نے مغربی بنگال میں حکام پر جان بوجھ کر ایسا کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے شیروں نام اور مقام تبدیل نہیں کیے تو وہ احتجاج کریں گے۔
اس سے قبل، ویشوا ہندو پریشد نے ’لو جہاد‘ سازشی تھیوری کو بھی فروغ دیا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ بھارت کی مسلم اقلیت ہندو خواتین کو مسلمان کرنے کے لیے دھوکہ دہی سے شادی کرتی ہے۔