جوں جوں ہم عمر میں بڑے ہوتے جاتے ہیں ہمارے غم بھی بڑے ہوتے جاتے ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ہم سے بڑے ایک ایسے ان دیکھے سفر کے مسافر بن جاتے ہیں جس کا ہر ذی روح کو ایک نہ ایک دن راہی ہونا ہی ہونا ہے۔ موت کب دیکھتی ہے کہ آپ کی عمر کیا ہے؟ بس داعیِ اجل نے آواز دی اور آپ کو لبّیک کہنا ہی کہنا ہے۔ فطری طور تو بڑی عمر میں ہی یہ پروانہ آتا ہے۔
بڑے لوگوں کے جانے کا بڑا چرچا ہوتا ہے۔ تعزیتی پیغامات جاری ہوتے ہیں۔ افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ نامعلوم خدمات بھی گنوائی جاتی ہیں۔ بہرحال کوئی چھوٹا یا بڑا اپنی نسبت سے ہوتا ہے۔ کوئی بڑا اپنے چھوٹے دائرے میں بڑا ہوتا ہے اور کوئی ہر دائرے میں ہی بڑا ہوتا ہے۔ کسی کے جانے سے احساس ہوتا ہے کہ کتنا بڑا شخص چلا گیا۔
کچھ دنوں پہلے نامور صحافی نزیر ناجی صاحب فوت ہوئے۔ ناجی صاحب کا اپنی کتاب “میڈیا منڈی “کے لئے میں یاد گار انٹرویو کر چکا ہوں۔ یہ ایسا انٹرویو تھا جو میں ریکار ڈ کر کے نکلا تو مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کس کو بتاؤں کہ ناجی صاحب کا میں نے ایک اچھوتا انٹرویو کیا ہے۔ ناجی صاحب سے بعد ازاں بھی دو ملاقاتیں ان کے گھر میں ہوئیں۔ ان ملا قاتوں کا احوال ضرور کسی وقت تحریر کروں گا۔
ہفتہ پہلے کی بات ہے سینئر صحافی اور شاعر سرفراز سید کی ایک فیس بک پوسٹ سے علم ہوا کہ ان کے بڑے بھائی سید اشتیاق احمدنہیں رہے۔ وہ جاذب بخاری کے نام سے شاعری کرتے تھے۔ بہت عمدہ اخلاق کے بزرگ تھے۔ پاکستان کے قیام کے وقت ہجرت اور اس کے بعد جن مشکلات سے ان کا خاندان گزرا وہ تکالیف بیان کرتے تو دل تکلیف سے بھر جاتا۔ مجھے اچھی طرح یا دہے کہ انھوں نےبتایا تھا کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف اسکول کے زمانے میں ان کے طالب علم رہے ہیں۔
اسی طرح چند روز پہلے “کوبیجا سپورٹس “سیالکوٹ کے روحِ رواں اصغر گھمن بھی اچانک چل بسے۔ ویسے ان کی عمر زیادہ نہیں تھی۔ صحت کے کچھ مسائل تھے مگر کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا جس سے لگتا کہ وہ جانے والے ہیں۔ ابھی وہ بالکل چاک و چوبند تھے۔ اصغر صاحب کا گاؤں حمزہ غوث سیال کو ٹ شہر کا ہی حصہ بن چُکا ہے۔ وہ واجبی سے پڑھے لکھے تھے۔ ایک معمولی اور چھوٹے سے کارو بار سے انھوں نے عملی زندگی کا آغاز کیا مگر اپنی محنت اور ذہانت سے وہ سیالکوٹ کے ان لوگوں میں شامل ہو گئے جنھوں نے اپنا کام اور نام اپنی محنت سے بنایا۔
ان کا شمار سیالکوٹ کے بڑے ایکسپوٹرز میں ہوتا تھا۔ موٹر سائیکل سپورٹس گڈز میں ان کی کمپنی کا ایک نام تھا۔ ہزاروں افراد کا عملہ ان کی فیکٹری میں کام کرتا ہے۔ انھوں نے کبھی نہیں چھپایا کہ وہ بہت چھوٹی سطح سے اس مقام تک پہنچے۔ وہ اکثر گرمیاں سپین اپنے گھر میں گزارتے۔ میں لاہور، اسلام آباد ہوتا یا اپنے گاؤں یا ننھیال وہ ضرور ملنے آتے۔ ان کے ہوتے ہوئے احساس تھا کہ کوئی دعا کرنے والا موجود ہے۔ خدا گھمن صاحب پر ویسے ہی مہربانی کرے جیسے وہ مخلوقِ خدا پر کرتے تھے۔
اسی طرح کی کہانی کرنل (ر ) سلطان سکندر گھمن کی ہے۔ کرنل صاحب پٹارو سے تعلیم یافتہ تھے۔ آرمی ایوی ایشن کے ان افسران میں شامل تھے جو پوما ہیلی کاپٹر اڑاتے رہے۔ بھٹو صاحب نے بھی ایک دفعہ ان کے ساتھ سفر کیا تھا۔ ریٹائرڈ ہوئے تو اپنی آبائی زمین پر 25 ایکڑ سے زائد رقبے پر کیڈٹ کالج بنا دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں توسیع کرتے گئے۔
گھمن صاحب کا گاؤں کوٹلی نوناں سمبڑیال، سیالکوٹ کے نواح میں گھمن برادری کا ایک معروف گاؤں ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اور واپڈا کے سابقہ چیئر مین خالد محمود، اور معروف کرکٹر وقار یونس کی بہنیں بھی اسی گاؤں کی بہو بنیں۔ کرنل سکند ر کے ایک بھائی لیفٹیننٹ جنرل (ر)اسرار گھمن کے علاوہ میجر نثار گھمن مشرف کے زمانے میں وفاقی وزیر رہے۔ جب کہ سابقہ ایم این اے، بورڈ آف انوسٹمنٹ کے چیئر مین اور شوکت عزیز کی کابینہ میں وزیرِ مملکت عمر احمد گھمن ان کے بھتیجے تھے۔
کرنل سکندر نے خود 2001 میں سیال کو ٹ کے ضلعی ناظم کا الیکشن لڑا۔ وہ جیتنے کی پوزیشن میں تھے۔ انھیں ایک طاقت ور عہدے دار کی کا ل آئی کہ آپ تحصیل ڈسکہ کے ناظم بن جائیں۔ جواب میں کرنل صاحب نے جواب دے دیا۔ پھر انھیں بتایا گیا کہ آپ کے پاس آدھا گھنٹہ ہے آپ سوچ لیں بصورتِ دیگر نتائج کچھ اور بھی ہو سکتے ہیں۔ کرنل سلطان سکندر صاحب نہیں مانے نتیجتاً ضلعی ناظم کا الیکشن کرنل صاحب ہا ر گئے۔ وہ ذہنی طور پر جمہوریت پسند تھے۔ 2002 کے الیکشن میں انھوں نے ڈسکہ سے الیکشن پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر اُسی حلقے سے لڑا جہاں سے بعد ازاں علی اسجد ملہی ایم این اے بنے۔ یہ وہی حلقہ ہے جہاں سے اپنے والد افتخار الحسن شاہ کی وفات کے بعد نوشین افتخار دوسری مرتبہ ممبر قومی اسمبلی بنیں ہیں۔
2002 کے الیکشنز میں ٹکٹوں کی تقسیم کے لئے انٹرویوز محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے لندن میں کیے تھے۔ محترمہ کرنل صاحب کی گفت گو سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ انھوں نے کرنل صاحب کو قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے ٹکٹ آفر کی۔
کرنل صاحب پُر اثر گفتگو کیا کرتے تھے۔ وہ یاروں کے یار تھے۔ ایک دفعہ سابق ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز پنجاب ڈاکٹر اسلم ڈوگر نے مجھے پوچھا کہ کرنل سکندر صاحب بھی آپ کے عزیز ہیں ؟
میں نے جواب دیا کہ وہ خاص گھمن ہیں اور ہم عام گھمن ہیں۔ یہی بات میں نے ایک دفعہ میں ڈوگر صاحب اور کرنل سکندر صاحب کی موجودگی میں کر دی تو کرنل صاحب نے ہنس کر مجھے گلے لگا لیا اور کہنے لگے۔ ہم سب بھائی ہیں اس میں کیا شک ہے۔ کرنل صاحب کئی سال قبل حج کرنے گئے تو وہاں انھیں فالج ہو گیا جس وجہ سے وہ کبھی مکمل طور پر صحت مند نہ ہو سکے۔
ان کا ایک ہی بیٹا ڈاکٹر سعد ہے جو امریکہ میں ہوتا ہے۔ بیٹی اپنے گھر میں آباد ہے۔
انسانی فطرت ہے کہ کوئی غریب پس منظر کا حامل ہو یا امیر، وہ خواب ہمیشہ اسی اپنے ماضی کو جنت میں تبدیل کرنے کے دیکھتا ہے۔ کرنل صاحب نے بھی کیڈٹ کالج کی شکل میں میں اپنی جنت آباد کی تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میں جنت میں رہتا ہوں۔ اب نہ جانے ان کی جنت کا کیا مستقبل ہوگا؟