گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والا کم عمر وی لاگر محمد شیراز اپنی معصومیت کی وجہ سے تیزی سے مقبول ہوا، اس کی ویڈیوز اتنے کم وقت میں اس قدر وائرل ہوئیں کہ یو ٹیوب کی جانب سے اسے سلور بٹن بھی مل چکا ہے۔
مزید پڑھیں
شیراز اور اس کی بہن مسکان کے وی لاگز کو 10 لاکھ سے زیادہ ویوز بھی ملے اور انہیں بہت سراہا گیا۔ وہ اپنی ویڈیوز میں گاؤں کی خوبصورتی دکھاتے اور شیراز ان ویڈیوز میں اکثر نہایت معصومیت سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے سوال کرتے ہوئے دکھائی دیتا۔ یہی وجہ تھی کہ مختلف ٹی وی چینلز نے اس کے انٹرویوز بھی کیے۔
انٹرنیٹ کی سست روی شیراز کی تیزی سے مقبولیت کی وجہ بنی
شیراز کے والد بھی ایک وی لاگر ہیں، وہ اپنے وی لاگز میں گاؤں کے مسائل کو اجاگر کرتے تھے۔ تاہم، شیراز کے وی لاگز کو نہ صرف پاکستان میں پسند کیا گیا بلکہ انڈیا، بنگلہ دیش، سعودی عرب، نیپال اور دیگر ممالک میں شیراز کے چاہنے والوں نے بھی ان کی ویڈیوز کو پسند کیا اور کمنٹس کرکے شیراز کی کامیابی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔
محمد شیراز کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع گانچھے کے آخری گاؤں سیاچن سے ہے۔ وہ اپنی ویڈیوز کے ذریعے اپنے گاؤں کے خوبصورت مناظر دکھاتے ہیں اور وہاں کے مسائل بھی اجاگر کرتے ہیں۔ انہی ویڈیوز میں لوگوں نے دیکھا کہ انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ سے شیراز کو اپنی ویڈیوز اپلوڈ کرنے کے لیے میلوں کا سفر طے کرنا پڑتا تھا۔ ان کے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کمانڈر ایس سی او نے شیراز کے گاؤں کا دورہ کیا۔ انہوں نے شیراز سے ملاقات کی، انہیں تحائف دیے اور ان کے گھر پر انٹرنیٹ کی فراہمی کو یقینی بنایا۔
رمضان ٹرانمشن میں انٹری
محمد شیراز اب نجی چینل ’اے ار وائی‘ کے پروگرام ’رمضان ٹرانسمیشن‘ میں وسیم بادامی کے ساتھ دکھائی دے رہے۔ اپنے کسی شہری کی رمضان ٹرانسمیشن میں انٹری گلگت بلتستان والوں کے لیے ایک سرپرائز تھا لیکن وہاں کے عوام مین اسٹریم میڈیا کو تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں میڈیا نے گلگت بلتستان کے مسائل اجاگر نہیں کیے بلکہ وائرل ہونے والے وی لاگر شیراز کو ٹرانسمیشن میں بلا لیا۔
’اب اسے اپنا گاؤں برا لگنے لگے گا‘
اس حوالے سے گلگت بلتستان کے سینیئر صحافی شبیرمیر کا کہنا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر کی طرف سے رمضان ٹرانسمیشن میں بچے کو بلا کر اس کی معصومیت ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شیراز کے والدین کو چاہیے تھا کہ وہ چینل کے کہنے پر بچے کو لے کر نہ جاتے کیونکہ شیراز پہلے سے ہی انٹرنیشنل لیول پر وائرل ہوچکا تھا، اسے یوٹیوب کی طرف سے سلور بٹن بھی ملا چکا تھا، وہ پیسے بھی کما رہا تھا۔ شبیر میر نے کہا کہ مگر اب شیراز جب شہر سے واپس اپنے گاؤں آئے گا تو اس کا ذہن مکمل طور پر تبدیل ہوچکا ہوگا، شہر کی رنگینیاں دیکھ کر اسے اپنا گاؤں برا لگنے لگے گا۔
’وہ اپنے گاؤں پر توجہ مرکوز رکھے تو اسے زیادہ فائدہ ہوگا‘
اسکردو سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے اس حوالے سے بتایا کہ شیراز کا تعلق گلگت بلتستان کے بہت ہی پسماندہ علاقے سے ہے، والد کو دیکھ کر اس نے بھی وی لاگنگ کا سلسلہ شروع کیا، شیراز ایک ایسے علاقے سے تعلق رکھتا ہے جہاں بنیادی سہولیات نہیں ہیں، شیراز نے یہی مسائل اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں لوگوں کو بتائے لیکن اب نیشنل میڈیا شیراز کا استعمال کمرشل طور پر کررہا ہے جو شیراز کے لیے فائدہ مند نہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ شیراز کو گاؤں سے تعلق رکھنے کی وجہ سے جانتے ہیں اور اپنے ماحول اور مسائل کے بارے میں اس کی گفتگو کو پسند کرتے ہیں، لوگوں کو یہ پسند نہیں آیا کہ وہ کمرشل چیزوں میں آجائے، وہ اپنے کلچر، گاؤں کی زندگی اور اپنے علاقے پر اپنی توجہ مرکوز رکھے تو اسے فائدہ ہوگا، شہر کی زندگی ہر کوئی دکھاتا ہے مگر شیرزا گاؤں کا رہن سہن دکھانے اور اپنی معصومیت کی وجہ سے مشہور ہوا تھا۔
’کہیں شیراز سے اس کی معصومیت چھین نہ لی جائے‘
بینکر عاطف جمال کا کہنا تھا کہ شیراز بہت معصوم بچہ ہے، اپنی معصومیت کی وجہ سے وہ سب کے دلوں پر راج کر رہا ہے لیکن رمضان ٹرانسمیشن میں شیراز کو بطور مہمان بلائے جانے پر وہ افسردہ ہیں کیونکہ انہیں یہ ڈر ہے کہ شہری ماحول کہیں شیراز سے اس کی معصومیت نہ چھین لے۔
’دوسروں کا کلچر دیکھ کر اس میں خوداعتمادی آئے گی‘
دوسری جانب، صحافی کرن قاسم کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان سے پہلی بار ایک چھوٹا بچہ پہاڑوں سے نکل کر انٹرنیشنل لیول پر گیا ہے، وہ دوسروں کا کلچر دیکھے گا تو اس میں خود اعتمادی آئے گی اور وہ وہاں کی زندگی دیکھ کر گلگت بلتستان کے مسائل کو اجاگر کرنے کی مزید کوشش کرے گا، اس طرح کے پلیٹ فارم پر جانے کے بعد مزید سیکھے گا اور مزید ترقی کرے گا۔
سوشل ورکر نورالعین کہتی ہیں، ’میں شیراز کی وی لاگنگ کی دیوانی ہوں، میں اس کی کوئی بھی ویڈیو مِس نہیں کرتی اور رمضان ٹرانسمیشن صرف شیراز کی وجہ دیکھتی ہوں۔‘