جنوبی افریقہ کی وزیر خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ ان کے ملک کے شہری جو غزہ میں اسرائیل کی مسلح افواج کے ہمراہ لڑتے ہیں انہیں واپسی پر گرفتار کر لیا جائے گا، جس سے جنوبی افریقہ کی جانب سے اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے الزامات عائد کرنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان خلیج مزید بڑھ جائے گی۔
وزیر خارجہ نالیدی پانڈور نے اس ہفتے کے شروع میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے منعقدہ ایک مظاہرے کے دوران تبصرہ کیا جس میں جنوبی افریقہ کی حکمراں افریقن نیشنل کانگریس یعنی اے این سی کے نمائندوں نے شرکت کی۔
مزید پڑھیں
وزیر خارجہ نے اپنے شہریوں کو اسرائیل کے حامی ان 5 ملکوں کے سفارتخانوں کے باہر مظاہرہ کرنے کی بھی ترغیب دی، جو غزہ میں اس کی فوجی کارروائی کا دم بھرتے ہیں، تاہم انہوں نے خاص طور پر کسی ملک کا نام نہیں لیا، حالانکہ یقینی طور پر ان ممالک سے ان کی مراد امریکا، برطانیہ اور جرمنی تھے۔
نالیدی پانڈور نے زوردار تالیوں کی گونج میں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پہلے ہی جنوبی افریقیوں کو خبردار کرنا شروع کر دیا ہے جو اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ ’ہم تیار ہیں، جب آپ گھر لوٹیں گے تو ہم آپ کو گرفتار کر لیں گے۔‘
دسمبر میں جنوبی افریقی محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ حکومت کو اس بات پر تشویش ہے کہ اس کے کچھ شہری یا مستقل رہائشی غزہ میں لڑنے کے لیے اسرائیلی ڈیفنس فورسز میں شامل ہوئے ہیں، وزارت خارجہ نے خبردار کیا تھا کہ ان کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے کیونکہ جنوبی افریقہ کے اسلحہ کو کنٹرول کرنیوالے قوانین کے تحت انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں ملی تھی۔
BREAKING:
⚡ 🇿🇦 South Africa:
"Every citizen of ours who participated in the genocide in Gaza will go to prison"
South Africa’s foreign minister says citizens who fight with the Israeli military in Gaza will be arrested when they return to South Africa… pic.twitter.com/6nbT2PRF7e
— Megatron (@Megatron_ron) March 13, 2024
محکمہ خارجہ نے مزید خبردار کیا تھا کہ جنوبی افریقہ اور اسرائیل کی دوہری شہریت رکھنے والے افراد کی جنوبی افریقہ کی شہریت منسوخ ہو سکتی ہے، وزیر خاجہ نالیدی پانڈور کے حالیہ بیانات حکومتی موقف کے واضح طور پر سخت ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ غزہ کی موجودہ جنگ میں جنوبی افریقہ کے کتنے شہری اسرائیل کے لیے لڑے ہیں، تاہم جنوبی افریقہ میں تقریباً 70 ہزار افراد کی ایک قابل ذکر یہودی آبادی ہے، جنوبی افریقہ کی حکومت نے موجودہ جنگ سے قبل بھی فلسطینی عوام کی حمایت اور اسرائیل پر تنقید کی ہے۔
یہ معاملہ حکمران اے این سی پارٹی اور بہت سے جنوبی افریقیوں کے دل کے قریب ہے جو برسوں سے غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے لیے اسرائیل کی پالیسیوں کا موازنہ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے دور میں، جو جبری نسلی علیحدگی اور جبر سے نشان زدہ رہا ہے، غیر سفید فام لوگوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک سے کرتے رہے ہیں۔

اسرائیل جنوبی افریقہ کے اس الزام کی تردید کرتا ہے کہ اس نے مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں پر نسل پرستی کی ایک شکل کا اطلاق کیا ہے، اسرائیل نے بین الاقوامی عدالت انصاف کے سامنے جنوبی افریقہ کے اس الزام کو سختی سے مسترد کیا کہ وہ غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے، اس مقدمہ کے فیصلے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔
اسرائیل نے جواب میں جنوبی افریقہ پر حماس کے عسکریت پسند گروپ کا نمائندہ ہونے کا جوابی الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ جنگ کا آغاز کرتے ہوئے حماس نے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں 12 سو کے قریب اسرائیلی شہری ہلاک جبکہ 250 کو یرغمال بنا کر غزہ لے جایا گیا تھا۔
غزہ پر اسرائیلی حملوں میں اب تک اب تک 31 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کیا جاچکا ہے، ساحلی علاقوں کے 23 لاکھ باشندوں میں سے بیشتر کو ان کے گھروں سے بے دخل کردیا گیا جو ایک انسانی تباہی کا باعث بنا، لاکھوں فلسطینی قحط کے دہانے پر ہیں۔
جنوبی افریقی وزیر خارجہ نالیدی پانڈور نے اس ہفتے کے فلسطینی یکجہتی ڈنر کے شرکاء سے کہا تھا کہ وہ ’نسل کشی بند کرو‘ جیسے نعروں پر مشتمل پوسٹرز بنائیں اور اسرائیل کے 5 بڑے اہم حمایتی ملکوں کے سفارت خانوں کے باہر احتجاج کریں۔ ’صرف اس ڈنر پر مت آئیں، فلسطین کے لوگوں کی حمایت میں بھی نظر آئیں۔‘