سپریم کے جسٹس یحییٰ آفریدی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6ججز کے خط پر از خود نوٹس کیس کی سماعت سے معذرت کرلی ہے۔
مزید پڑھیں
ذرائع کے مطابق جسٹس یحییٰ آفریدی کی جانب سے اس معاملے میں لکھے گئے نوٹس کے مطابق 6 ججز نے اپنے خط میں کوڈ آف کنڈکٹ ترتیب دینے کی بات ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کے نوٹ کے مطابق انتظامی معاملے پر عدالتی کارروائی سے منفی تاثر جائیگا۔ سپریم کورٹ کو اس معاملے کو جوڈیشل سطح پر چلانے سے گریز کرنا چاہیے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کے نوٹ کے مطابق ہائیکورٹس کے پاس آئین کے تحت انتظامی اختیارات موجود ہیں۔ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس یا دیگر ججز نے اپنے اختیارات کو استعمال نہیں کیا۔
اس حوالے سے جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا ہے کہ موجودہ کیس میں سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184/3 کا اختیار استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
پس منظر
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کے حوالے سے مشترکہ طور پر خط لکھا تھا۔ انہوں نے اس خط میں متعدد واقعات کا ذکر کیا ہے۔
6 ججوں نے خط کا آغاز جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب طاہر کے چیف جسٹس عامر فاروق سے اختلاف کرتے ہوئے عمران خان کے خلاف ٹیریان وائٹ کیس کو ناقابل سماعت قرار دینے کے فیصلے سے کیا۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ جن ججز نے چیف جسٹس سے اختلاف کرتے ہوئے فیصلہ دیا ان پر آئی ایس آئی کی جانب سے ججز کے خاندان اور دوستوں سے دباؤ ڈالوایا گیا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ٹیریان وائٹ کیس کے فیصلے کے بعد آئی ایس آئی کی جانب سے بڑھنے والے دباؤ کے نتیجے میں فیصلہ دینے والے 2 ججز نے اپنی رہائشگاہ پر اضافی سیکیورٹی مانگی۔ جبکہ ایک جج کوتناؤ کے باعث ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے اسپتال میں میں داخل ہونا پڑا۔ یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور 2 مئی 2023 کو اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان (عمر عطا بندیال) کے سامنے بھی رکھا گیا۔
خط کے مطابق اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ یہ معاملہ وہ آئی ایس آئی کے ڈی جی سی کے سامنے اٹھا چکے ہیں اور انہوں نے آئندہ ایسا نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی ہے تاہم آئی ایس آئی کی جانب سے مداخلت جاری رہی۔
مئی 2023 میں مسلح افراد نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج کے بہنوئی کو اغوا کیا اور 24 گھنٹے بعد چھوڑا، جنہوں نے واپسی پر بتایا کہ اغوا کاروں نے بتایا کہ ان کا تعلق آئی ایس آئی سے ہے۔ اس دوران انہیں الیکٹرک شاک لگائے گئے اور ویڈیو میسج ریکارڈ کروایا گیا جس میں جج کے اوپر الزمات لگائے گئے۔ بعدازاں اس جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست بھی دائر کی گئی تاکہ ان پر دباؤ ڈال کر استعفی لیا جاسکے۔