قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو پی ٹی آئی نے اسے عالمی سازش قرار دے دیا۔ اپنے دور میں عمران خان جنون کی حد تک فوج کی تعریفیں کرتے رہے۔ سابق سپہ سالار جنرل باجوہ کو ملکی تاریخ کا بہترین جنرل قرار دیتے رہے اور کہا کہ فوج اور ان کی حکومت ایک صفحے پر ہے۔ یہ بھی کہا کہ ہر فیصلہ جنرل باجوہ کرتے یا پھر اہم فیصلوں میں ان کی مرضی ضرور شامل ہوتی ہے۔ 2014 کے دھرنے سے شروع ہونے والی فوج کی تعریفیں جب کہ میڈیا اور سیاسی مخالفین کی برائیاں اپنے اقتدار کے خاتمے تک جاری رہیں۔ جونہی اقتدار ہاتھ سے نکلا لعن طعن شروع ہوگئی اور آج تک جاری ہے۔
مزید پڑھیں
پھر کہا کہ سارے فیصلے جنرل باجوہ کرتے تھے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئینی طریقے سے کامیاب ہونے والی تحریک عدم اعتماد کو فوج اور سیاستدانوں کی سازش کہنے لگے۔ ویسے دیکھا جائے تو دنیا بھر میں تحریک اعتماد لانے کے لیے ہمیشہ اپوزیشن کی جماعتیں کچھ تو ساز باز کرتی ہیں تاکہ حکومت گرائی جا سکے۔
جنرل باجوہ تاریخ کے بہترین جنرل سے تحریک انصاف کے بدترین دشمن قرار پانے کے بعد نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی نشانے پر آگئے۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد تو تحریک انصاف نے ہر معاملے کا ذمہ دار انہیں ٹھہرایا۔ جیل میں قید عمران خان کے حالیہ بیان نے ساری کسر نکال دی۔ اگرچہ عمران خان اس سے پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کی لڑائی صرف آرمی چیف سے ہے مگر اس مرتبہ وہ ایک قدم اور آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ ان کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے وہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کروا رہے ہیں اور اگر ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو کچھ ہوا تو وہ جنرل عاصم منیر کو نہیں چھوڑیں اور جب تک زندہ ہیں ان کا پیچھا کرتے رہیں گے۔
حکومت نے ان کے اس بیان کو عمران خان کی بے بسی اور لاچاری قراردے دیا اور کہا کہ عمران خان ایک بند گلی میں پھنس چکے ہیں اور اب ایسے بیان دے رہے ہیں۔ اس قدر نفرت اور غصہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ شاید تاثر دینا چاہتے ہیں کہ اگر ان کے خلاف کوئی سنگین قانونی کارروائی ہوتی ہے تو پیغام یہ جائے گا کہ یہ سب آرمی چیف کے حکم پر ہوا ہے اور ان کے سپورٹرز صرف آرمی چیف کو نشانہ بنائیں گے۔ دوسرا یہ کہ وہ فوج میں اپنے جانثار حامیوں کو مخاطب کرکے بتانا چاہتے ہیں کہ ان کا سپہ سالار تحریک انصاف کے خلاف کارروائیاں کروا رہا ہے اور وہ اس کا حصہ نہ بنیں۔ حالانکہ ایسا ممکن نہیں۔ فوج کا نظم و ضبط کسی صورت ٹوٹ نہیں سکتا۔
بانی تحریک انصاف نے اپنے حامیوں کی ایسی ذہن سازی کی ہے کہ جو شخص عمران خان یا ان کی جماعت کے بیانیے کے خلاف بات کرے وہ تحریک انصاف کے غضب سے نہیں بچ سکتا۔ 2014 کے دھرنے میں عمران خان نے کسی کے خلاف سچا جھوٹا الزام لگایا تو ان کے حامی ایک قدم آگے نکل گئے۔ فوج پر معمولی تنقید کرنے والے صحافیوں کو بھارت کا ایجنٹ اور ملک دشمن قرار دیا۔ عمران خان کی حکومت کی کارکردگی کو نشانہ بنانے والے تحریک انصاف کے غیض سے بچ نہ پائے اور ان کے خاندان تک کو نہ بخشا گیا۔ بلکہ عمران خان خود صحافیوں کی ٹویٹس ڈیلیٹ کرواتے رہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کے بہت سے کھاتے بند کروا دیے جسے عمران خان اپنے دور حکومت میں شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ اپنے مخالفین کے خلاف جھوٹے کیس بنوائے اور ان کے حامی سرے سے جھوٹے کیسز کو بھی سچ مانتے رہے۔ اب بہت سے ایسے کیسز ختم ہونے پر آگ بگولہ ہو رہے ہیں۔ بلکہ اپنے خلاف جھوٹے کیسز کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ ملک دشمن کہلائے جانے والے محمود اچکزئی کو صدر کے عہدے پر نامزد کرنے کے ساتھ انہیں اپوزیشن اتحاد کا سربراہ مقرر کر دیا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کا ایجنڈا تھا کہ اسٹییبلشمنٹ سے کھل کر لڑنے کی بجائے ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے انہیں آہستہ آہستہ سیاسی امور سے دور کیا جا سکے۔ عمران خان نے آگے بڑھ کر اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بننے کی آفر کی اور اسٹیبلشمنٹ کو مزید طاقتور بنانے کے لیے ہر قدم ساتھ دینے کا وعدہ کرلیا، جس کا خمیازہ آج وہ خود اور ساری قوم بھگت رہی ہے۔ آج سیاست اور میڈیا کی اسپیس نہ ہونے کے برابر ہے، جس کے قصوروار عمران خان ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ قدم ملانے کی بجائے انتقام اور نفرت کی سیاست شروع کر کے عمران خان ملک کو انارکی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں اگر وہ نہیں تو کوئی اور بھی نہیں۔
ایک مرتبہ جب ان سے پوچھا گیا کہ عمران خان صاحب آپ کا سیاسی انداز آپ کو بندگلی میں لے کر جا رہا ہے تو وہ بولے، ’میں بندگلی میں نہیں جاسکتا۔ اگر میں بندگلی میں گیا تو پورا ملک بندگلی میں جائے گا‘۔