آج کل بھارتی ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی کی پہلی نیٹ فلکس سیریز ہیرامنڈی کے چرچے زُبان زد عام ہیں اور پاکستان کے معروف صحافی حامد میر بھی کسی سے پیچھے اور انہوں نے بھارت کے مایہ ناز مانے جانے والے ہدایت کار کی اس سیزیز کا بھانڈا پھوڑ دیا۔
انہوں نے اپنے کالم میں اس بات پر روشنی ڈالی کہ نیٹ فلکس سیریز اور لاہور کی اصلی ہیرا منڈی میں کیا فرق ہے ؟
مزید پڑھیں
حامد میر نے اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ جب میں سینٹرل ماڈل اسکول لوئر مال لاہور میں پڑھتا تھا تو انٹراسکول کرکٹ ٹورنامنٹ کے اکثر میچ مینار پاکستان کے سائے تلے اقبال پارک میں ہوتے تھے۔ہم صبح صبح اسکول سے تانگوں میں بیٹھ کر اقبال پارک پہنچتے اور شام کو میچ ختم ہونے پر ہیرا منڈی کے راستے سے پیدل بھاٹی گیٹ آتے۔یہ ہیرا منڈی سے ہمارا پہلا تعارف تھا۔
انہوں نے اپنے کالم میں لکھا کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں ہماری کرکٹ ٹیم کے دو کھلاڑیوں کا تعلق ہیرا منڈی سے تھا اور کبھی کبھی ہم اسلامیہ کالج سول لائنز سے میچ جیت کر پھجے کے پائے کھانے ہیرا منڈی چلے جاتے۔اسی زمانے میں ہم نے شورش کاشمیری کی کتاب ’’اس بازار میں‘‘ پڑھ لی اور ہمیں ان طوائفوں سے ہمدردی ہو گئی۔صحافت میں آئے تو ہیرا منڈی سے تعلق رکھنے والی ایک فلم ایکٹریس نادرہ قتل ہو گئی۔اس قتل پر ایک تحقیقاتی فیچر لکھنے کیلئے نیشنل کالج آف آرٹس کے ایک استاد اقبال حسین کے پاس بار بار ہیرا منڈی جانا ہوتا تھا اور وہ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ ہیرا منڈی کی طوائفیں علامہ اقبال ٹائون اور ڈیفنس کی طرف منتقل ہو رہی ہیں۔سنجے لیلا بھنسالی نے نیٹ فلیکس پر جو ہیرا منڈی دکھائی ہے اس میں بڑی بڑی عالی شان حویلیاں ہیں جو آج کی اصلی ہیرا منڈی میں کہیں نظر نہیں آتیں۔
اس ڈرامے میں جو نواب دکھائے گئے ہیں وہ انگریزوں کے زمانے میں لکھنؤ میں تو موجود تھے لیکن لاہور میں نہیں تھے۔سنجے لیلا بھنسالی کیلئے اس ڈرامے کا سکرپٹ معین بیگ نے لکھا ہے۔ ڈرامہ تو ڈرامہ ہوتا ہے جس میں حقیقت اور افسانے کا امتزاج بنانا ایک پرانی روایت ہے ۔
عام خیال یہ ہے کہ لاہور کی ہیرا منڈی مغلوں کے دور میں قائم کی گئی لیکن ’تاریخ لاہور‘ کے مصنف کنہیا لال ہندی بتاتے ہیں کہ لاہور کی طوائفوں کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں عروج حاصل ہوا کیونکہ اس نے دو طوائفوں موراں اور گل بیگم سے شادی کی ۔موراں نے ایک مسجد بھی بنوائی اور جو مسجد مائی موراں کے نام سے مشہور ہوئی اور گل بیگم کے نام پر آج باغ گل بیگم کا علاقہ لاہور میں موجود ہے ۔
رنجیت سنگھ کے دور میں پنجاب کے ڈوگرہ وزیر اعظم ہیرا سنگھ نے بازار حسن کو کاروبار کا مرکز بنانے کیلئے یہاں زرعی اجناس کی منڈی بھی بنا دی اور اس علاقے کو ’’ہیرا سنگھ دی منڈی‘‘ کہا جانےلگا۔
اے حمید نے ’لاہور لاہور اے‘ میں لکھا ہے کہ ایک زمانے میں سرسید احمد خان علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیلئے چندہ جمع کرنے لاہور آئے تو شاہی محلے (ہیرا منڈی)میں بھی چلے گئے اور واپس آکر کہا کہ طوائفوں کے چندے سے اپنی یونیورسٹی میں غسل خانے بنوائوں گا۔
مستنصر حسین تارڑ کی ’لاہور آوارگی ‘ کے ایک باب کا نام ’ہارٹ آف ہیرا منڈی‘ہے جہاں تارڑ صاحب نور جہاں، فریدہ خانم، مہدی حسن، بڑے غلام علی خان اور کئی دیگر بڑے فنکاروں کو تلاش کرتے نظر آتے ہیں لیکن نیٹ فلیکس والی ہیرا منڈی ان کی کتاب میں نظر نہیں آتی۔سچ یہ ہے کہ اصلی ہیرا منڈی شاہی قلعہ لاہور کے پہلو میں نہیں بلکہ بھارت اور پاکستان کے بڑے شہروں کے ماڈرن علاقوں میں منتقل ہو چکی ہے ۔