سابق وزیراعظم عمران خان کو جمعرات کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے 5 رکنی بینچ کے سامنے بطور درخواست گزار پیش ہوئے۔
مزید پڑھیں
سابق وزیراعظم عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کے لیے اڈیالہ جیل میں خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔
سماعت کی آغاز سے قبل سپرنٹینڈینٹ اڈیالہ جیل نے آڈیو اور ویڈیو چیک کروائی۔ 11 بج کر 37 منٹ پر سماعت کا آغاز ہوا تو تکنیکی عملے نے فون کے ذریعے اڈیالہ جیل پیغام پہنچایا کہ کیمرا آن کردیں جس کے بعد عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے۔
عمران خان نے فیروزی رنگ کی شرٹ اور کالے رنگ کا ٹراؤزر زیب تن کیا ہوا تھا۔ گلے میں تعویز کا دھاگا نمایاں تھا جبکہ شرٹ کے دونوں بٹن کھلے ہوئے تھے۔
ابتدا میں عمران خان کی آنکھیں سوجی ہوئی نظر آرہی تھی اور یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ ابھی سو کر اٹھے ہوں تاہم ان کے چہرے پر نیند کے آثار نہیں تھے۔
عمران خان نے ایک ہاتھ کرسی کے بازو پر رکھ کر ٹیک لگایا ہوا تھا جبکہ وہ اپنی ٹھوڑی پر دوسرا ہاتھ جمائے کیمرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس دوران عمران خان مسلسل مسکراتے نظر آئے۔
عمران خان کی کرسی زیادہ آرام دہ نہیں تھی اسی لیے وہ بار بار بیٹھنے کا طریقہ بدل رہے تھے اور 2 مرتبہ تو انہوں نے کرسی بھی دوسری سائیڈ پر کی۔
جس کمرے میں عمران خان کو بٹھایا گیا تھا اس میں عمران خان کے دائیں اور بائیں جانب 2 کرسیاں موجود تھیں۔ سائیڈ ٹیبل پر پانی کی 4 بوتلیں رکھی ہوئی تھیں اور عمران خان وقفے وقفے سے ایک ایک گھونٹ پانی پی رہے تھے۔
ان کے پیچھے دائیں اور بائیں جانب موجود ایک کرسی خالی تھی جب کہ دوسری کرسی پر پولیس اہلکار موجود تھے لیکن وہ کیمرے میں نظر نہیں آرہے تھے تاہم دوران سماعت عمران خان متعدد مواقع پر ان کے ساتھ بات چیت کرتے دکھائی دیے۔
جس کمرے میں عمران خان کو بٹھایا گیا تھا اس کا دروازہ کھلا ہوا تھا جب کہ دروازے میں پولیس اہلکار بھی کھڑے نظر آرہے۔ دروازے کے بالکل سامنے ایک کھڑکی تھی جس پر نیلے رنگ کا پردہ لٹکا ہوا تھا۔
عمران خان نے سماعت کے ابتدائی 30 منٹ میں 5 مرتبہ پانی پیا اور وہ ٹیک لگائے اور ٹانگ پر ٹانگ رکھے سماعت سن رہے تھے۔
جب چیف جسٹس نے عمران خان کو ریسپونڈینٹ نمبر 1 کہہ کر پکارا
سماعت کے آغاز میں جب مخدوم علی خان دلائل دے رہے تھے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مخدوم علی خان سے کہا کہ آپ تھوڑا اونچا بولیں تاکہ رسپونڈنٹ نمبر 1 آپ کو سن سکیں اور وہ لکھ سکیں، جس پر عمران خان کھل کر مسکرائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 2 مرتبہ عمران خان کو ریسپونڈینٹ نمبر 1 کہہ کر مخاطب کیا اور ان کا نام نہیں لیا۔ دونوں مرتبہ عمران خان کی مسکراہٹ نمایاں طور پر دیکھی جاسکتی تھی۔
عمران خان کی پولیس اہلکاروں کو ہدایات
سابق وزیراعظم عمران خان پولیس اہکاروں کے ساتھ گپ شپ لگاتے بھی دیکھے گئے اور کچھ مواقع پر انہیں ہدایات بھی دیتے نظر آئے۔
سابق وزیراعظم سماعت کے دوران آنکھوں پر پڑنی والی روشنی سے تنگ ہوتے ہوئے نظر آئے اور ہاتھوں سے اشارہ بھی کرتے رہے جیسے سامنے سے آنے والی روشنی ان کی آنکھوں پر پڑ رہی ہو۔ انہوں نے پولیس اہلکاروں کو ہدایات دیں جس کے بعد کمرے کی روشنیاں کم کر دی گئیں لیکن کیمرے کے لیے روشنی کم ہونے کے باعث دوبارہ بتیاں جلا دی جاتیں۔
عمران خان نے ایک موقعے پر پولیس اہلکار سے کچھ منگوایا اور ہاتھوں کے اشاروں سے سمجھایا کہ وہ کہاں پڑا ہوا ہے۔ کچھ دیر ایک پولیس اہلکار عمران خان کی عینک کا کوور لے کر آگیا۔ عمران خان نے کوور کھولا عینک پہنی لیکن پھر اتار دی کیونکہ سامنے سے پڑنے والی روشنی سے وہ تنگ ہورہے تھے۔
روشنی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بڑی ٹارچ بھی منگوائی گئی جس سے سامنے والی بتیاں بھجا کر ایمرجنسی لائٹ چھت کی طرف موڑدی گئی کہ شاید اس سے کم روشنی کا مسئلہ حل ہو جائے لیکن سب جتن بے کار گئے اور بتیاں پھر آن کردی گئیں۔
جب عمران خان کی تصویر لیک ہوئی کمرہ عدالت میں دوڑیں لگ گئیں
سماعت کے کچھ دیر بعد جب عمران خان کی تصویر لیک ہوگئی اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو عملے کی دوڑیں لگ گئیں اور احتیاط عملے نے عدالت میں لگی اسکریںز سے عمران خان کی ویڈیو لنک ہٹا کر روسٹرم کا کیمرہ آن کردیا اور اسکرین پر روسٹرم پر کھڑے مخدوم علی خان نظر آنے لگے تاہم یہ سلسلہ 7 منٹ بعد اس وقت ختم ہوا جب عملے کو جسٹس اطہر من اللہ نے پیغام پہنچایا اور عمران خان دونوں اسکرینز پر دوبارہ نظر آنے لگے۔
عدالت میں عمران خان کے قہقہے
ایک موقعے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مخدوم علی خان سے نیب ترمیمی بل کی منظوری سے متعلق دریافت کیا کہ کیا درخواست گزار کی سیاسی جماعت نے اس بل کی مخالفت کی تھی؟
اس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ درخواست گزار کے پاس اتنی نشستیں تھیں کہ انہوں نے اگر مخالفت کی ہوتی تو بل ہی منظور نہ ہوتا۔
اس پر عمران خان سر نیچے کر کے قہقہے لگانے لگے۔
ایک موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ یہ قانون کرپشن کے خاتمے سے متعلق ہے اور کیا پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا اتنے آزاد ہیں جو اس قسم کی قانون سازی کریں؟
اس ریمارکس پر عمران خان خوب ہنسے اور اتنا ہنسے کے ان کی آنکھوں سے پانی نکل آیا۔
سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جب تمام وکلا سے ان کی دستیابی سے متعلق پوچھ رہے تھے اس وقت اطہر من اللہ نے کہا کہ ریسپونڈینٹ نمبر 1 تو کہیں جاہی نہیں سکتے۔
سابق وزیراعظم عمران خان اور بینچ میں شامل تمام ارکان اس پر ہنسنے لگے۔
سماعت کے اختتام پر اٹارنی جنرل کو جسٹس اطہر من اللہ نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ججز کے خلاف توہین آمیز پریس کانفرنسز ہورہی ہیں، آپ خود کو اس سے دور رکھیں، یہ جو کر رہے ہیں وہ خود کو ایکسپوز کر رہے ہیں۔
تاہم جسٹس اطہر من اللہ کے ان ریمارکس کو بینچ کے دیگر ارکان بشمول چیف جسٹس نے بالکل نظر انداز کر دیا اور سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے سائیڈ ٹیبل پر رکھی اپنی عینک اٹھاکر کوور میں ڈالی اور اپنی فائل بھی اٹھا کر واپس چلے گئے۔