مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے باعث ہجرت کرکے پاکستان آنے والے کشمیری ملک کے مختلف حصوں میں رہائش پذیر ہیں، کشمیری مہاجرین پناہ گزین کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں جہاں بیس کیمپ کی حکومت کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان کی جانب سے بھی ان کے ساتھ تعاون کیا جاتا ہے۔
آزاد کشمیر میں قائم کشمیری پناہ گزینوں کے کیمپوں میں نوجوان مرد و خواتین حکومت پاکستان کی مدد سے کامیابی کے راہ پر گامزن ہیں۔
مزید پڑھیں
ان کیمپوں میں سینکڑوں کامیابیوں کی کہانیاں ہیں، ان ہی کامیاب کہانیوں میں توصیف احمد کی کہانی بھی ہے۔
توصیف احمد ڈیرہ غازی خان میڈیکل کالج میں تیسرے سال کا طالبعلم ہے۔
توصیف احمد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ حکومت پاکستان کشمیری پناہ گزینوں کے لیے نشستیں مختص نہ کرتی تو شاید میرا ڈاکٹر بننے کا خواب پورا نہ ہوتا۔ حکومت پاکستان کی مدد سے میرا اور اس طرح بہت سے کشمیری نوجوانوں کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔
حکومت پاکستان نے 2000 کی دہائی میں پاکستان کے میڈیکل کالجوں میں سالانہ 50 نشستیں مقبوضہ کشمیر کے طلبا اور آزاد کشمیر میں پناہ گزین کشمیری طلبہ کے لیے مختص کی تھیں۔ ان کو حکومت پاکستان اسکالر شپ بھی فراہم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان ٹیکنیکل اسسٹنٹ پروگرام (پی ٹی اے پی) کے تحت بھی کشمیری طلبا کو پاکستان کے میڈیکل کالجوں میں داخلے دیے جاتے ہیں۔
اب تک دونوں طرف کے سینکڑوں کشمیری ڈاکٹر بن چکے ہیں یا پھر پاکستان کے مڈیکل کالجوں میں زیرتعلیم ہیں۔ آزاد کشمیر میں مقیم 300 کشمیری پناہ گزین ڈاکٹر بن چکے ہیں یا پھر پاکستان کے مڈیکل کالجوں میں زیرتعلیم ہیں۔
انڈین فوج کی زیادتیوں سے بچنے کے لیے توصیف کے والد 90 کی دہائی میں مقبوضہ کشمیر کے دور دراز علاقے سے ہجرت کرکے آزاد کشمیر آئے اور کچھ عرصہ بعد شادی کی۔ ان کے 7 بچے ہیں جن میں 4 بیٹے اور 3 بیٹیاں شامل ہیں۔ یہ سب بچے آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا انتقال ایک سال پہلے ہوا۔
توصیف کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے جس علاقے سے ان کے والد آزاد کشمیر آئے وہاں مواقع اور سہولتیں میسر نہیں تھیں اور ان کے علاقے میں بھارتی فوج مقامی لوگوں پر آئے روز حملے کرتی تھی۔
انہوں نے کہاکہ اگر میں وہاں ہوتا تو سہولیات کے فقدان اور خوف کی وجہ سے تعلیم پر توجہ دینا بہت مشکل تھا۔
حکومت پاکستان کشمیری پناہ گزینوں کے بچوں کو اسکالر شپ فراہم کرتی ہے
توصیف کی بڑی بہن کوثر بی بی نے پنجاب یونیورسٹی سے کشمیری پناہ گزینوں کی نشست پر مائیکرو بیالوجی اور مالیکیولر جنیٹکس میں بی ایس کیا۔ ان کو حکومت پاکستان نے اسکالرشپ فراہم کی۔ اب وہ پنجاب یونیورسٹی سے ہی ایم فل کررہی ہیں۔
توصیف کے بڑے بھائی صدیق لون نے کشمیری پناہ گزنیوں کے لیے مختص نشست پر آزاد کشمیر کی یونیورسٹی سے صحافت میں ڈگری حاصل کی۔ ان کے 3 چھوٹے بھائی بہن اسکول یا کالج میں زیر تعلیم ہیں جبکہ ایک بھائی بہت چھوٹا ہے وہ ابھی اسکول نہیں جارہا۔
واضح رہے کہ حکومت پاکستان نے ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے علاوہ انجینیئرنگ اور دیگر شعبوں میں بھی کشمیری پناہ گزینوں کے لیے نشستیں مختص کررکھی ہیں اور اسکالرشپ بھی دی جاتی ہے۔
44 ہزار 500 کشمیری پناہ گزنیوں پر مشتمل 8 ہزار سے زیادہ خاندانوں میں سے زیادہ تر آزاد کشمیر میں آباد ہیں۔ وہ 1990 کی دہائی میں بھارتی مظالم کی وجہ سےآزاد کشمیر آئے۔
مقبوضہ کشمیر میں 1988 سے اب تک بھارتی فورسز نے ہزاروں کشمیریوں کو قتل کیا۔ ان پر تشدد کیا، بڑے پیمانے پر کشمیری قید کیے گئے، پیلٹ شاٹ گنز سے ایک نسل کو اندھا کیا گیا، دسیوں ہزار بچے یتیم ہوچکے ہیں، ہزاروں خواتین بیوہ ہوئیں اور بہت سے لوگ مفلوج ہوچکے ہیں۔
ان مشکلات کے باوجود ہجرت کرنے والے بہت سے لوگوں کو پاکستان میں نا صرف سکون کی زندگی میسر آئی بلکہ آزاد کشمیر میں پناہ گزین کیمپ امید کی کرن ہیں جہاں کشمیری پناہ گزیں پاکستان کی مدد سے کامیابی کی راہ پر گامزن ہیں۔