سابق وفاقی وزیر شیری رحمان دفتر اور عوامی مقامات پر عمومی طور پر لوگوں کے طرز تخاطب میں پوشیدہ صنفی عدم مساوات سے سخت نالاں ہیں لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اس موضوع پر نہایت شائستہ پیرایہ اظہار میں اپنی شکایت میں درج کراتی نظر آتی ہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر رہنما پیپلز پارٹی نے ایک منفرد شکایت پوسٹ کرتے ہوئے اپنے آفس کے ساتھیوں اور عوامی اجتماعات کا حصہ بننے والے شہریوں سے درخواست کی ہے کہ کام کاج کے رسمی مقامات پر خواتین کو بھی مردوں کی طرح مخاطب کرنے کے لیے مناسب معیار بروئے کار لائیں۔
Dear colleagues at work, others in the public domain in meetings, debates and tv shows : please use the same standard for addressing women as men in formal work settings. Example, do not refer to us by first names if you are referring to all other colleagues (male) in the room by…
— SenatorSherryRehman (@sherryrehman) June 6, 2024
اس ضمن میں اپنی تلقین کی وضاحت کرتے ہوئے سابق صحافی اور سفارتکار شیری رحمان کا موقف ہے کہ اگر آپ کمرے میں موجود دیگر تمام مردوں کو ان کے پورے نام کے ساتھ ساتھ کسی سابقے مثلاً صاحب جیسے لفظ کا بھی استعمال کررہے ہیں تو ہمارے پہلے ناموں سے ہمیں مخاطب نہ کریں۔
’مجھے افسوس ہے لیکن میں آپ کو صرف “شیری” کہنے کی اجازت نہیں دے سکتی اگر میرے ساتھ دیگر ساتھیوں کو احترام کے طور پر ان کے ناموں کے ساتھ صاحب لگا کر مخاطب کررہے ہیں۔۔۔ مجھے شیری کہلائے جانے پر کوئی اعتراض نہیں اگر آپ میرے دوسرے مرد ساتھیوں کو بھی ان کے پہلے نام سے مخاطب کرتے ہیں۔‘
اپنی شکایت کو شائستگی کے ساتھ انگریزی میں ضبطِ تحریر لاتے ہوئے شیری رحمان نے سماجی رابطوں میں استوار ایک اور ابلاغی مسئلہ کو اجاگر کیا ہے اور اس ضمن میں انہوں نے اپنی عمر کے حوالے سے خواتین کی روایتی جھجھک کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے۔
’آپ بلا جھجھک مجھے خالہ یا آنٹی کہہ سکتے ہیں اگر آپ کی اس سے تسلی ہوتی ہے، لیکن براہِ کرم مجھے لڑکی کہہ کر مخاطب نہ کریں، چاہے آپ (مجھ سے) بڑے ہی کیوں نہ ہوں، شفقت سے بھی نہیں، عوامی زندگی کے ایک طویل عرصے کے ساتھ میری عمر 63 سال ہے، جو کسی محفل میں عزت کے ساتھ اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے بہت ہے۔‘