حماس نے کہا ہے کہ گزشتہ روز ایک اسرائیلی فضائی حملے میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی بہن سمیت خاندان کے 10 افراد شہید ہو گئے ہیں، جنہوں نے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی تحریک جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا تھا، تاہم اسرائیلی فوج نے ان رپورٹس کی تصدیق نہیں کی ہے۔
مزید پڑھیں
حماس کے ذرائع اور غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی نے بتایا کہ حملہ شمالی غزہ کی پٹی میں الشطی پناہ گزین کیمپ میں اسماعیل ہنیہ خاندان کے گھر پر ہوا، شہری دفاع کے ترجمان محمود بسال کے مطابق حملے کے نتیجے میں 10 شہادتیں ہوئی ہیں، جن میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی بہن زاہر ہنیہ بھی شامل ہیں۔
محمود بسال نے کہا کہ ممکنہ طور پر کئی لاشیں اب بھی ملبے کے نیچے موجود ہیں لیکن انہیں نکالنے کے لیے ان کے پاس ضروری سامان نہیں ہے، سول ڈیفنس کے عملے نے بازیافت شدہ لاشوں کو قریبی غزہ شہر کے العہلی اسپتال منتقل کیا، جبکہ حملے میں کئی افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔
حماس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہنیہ خاندان کا گھر کا نام اسرائیلی بمباری کا نشانہ بننے والی قتل عام کی فہرست میں شامل ہے، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کی جانب سے کیے گئے تھے۔
حماس کے مطابق، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل جان بوجھ کر معصوم شہریوں کو نشانہ بنا کر اور ان کے خلاف سب سے ہولناک قتل عام کر کے تمام بین الاقوامی قوانین، انسانی اصولوں اور اقدار کی خلاف ورزی جاری رکھے ہوئے ہے۔
بعد ازاں منگل کو اپنے ایک الگ بیان میں، اسماعیل ہنیہ کا کہنا تھا کہ ان کے رشتہ داروں کی شہادتیں اس گروپ کو کسی بھی طرح سے نہیں روکے گی۔ ’اگر مجرم دشمن یہ سمجھتا ہے کہ میرے خاندان کو نشانہ بنانے سے ہمارا موقف بدل جائے گا اور ہماری مزاحمت پر اثر پڑے گا تو وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہا ہے کیونکہ غزہ اور فلسطین کا ہر شہید میرے خاندان سے ہے۔‘
’ہمارے شہدا کا خون اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم سمجھوتہ نہ کریں، ہم تبدیل نہ ہوں، ہم کمزور نہ ہوں بلکہ عزم کے ساتھ اپنے راستے پر چلتے رہیں۔‘
رواں برس اپریل میں وسطی غزہ میں اسرائیلی حملے میں اسماعیل ہنیہ کے 3 بیٹے اور 4 پوتے شہید ہوگئے تھے، اسرائیلی فوج نے ان پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا، اسماعیل ہنیہ نے اس وقت بتایا تھا کہ 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے بعد سے ان کے خاندان کے تقریباً 60 افراد شہید ہو چکے ہیں۔