بانی پی ٹی آئی عمران خان نے 9 مئی حملوں کے تناظر میں وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ میں نے کہا تھا اگر مجھے گرفتار کیا گیا تو جی ایچ کیو کے سامنے پُر امن احتجاج کریں۔ میں نے کبھی کسی کو توڑ پھوڑ اور پرتشدد مظاہروں کی اجازت نہیں دی۔
اڈیالہ جیل میں 190 ملین پاونڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی نے میڈیا سے گفتگو میں مزید کہا کہ میں نے کہا تھا اگر مجھے گرفتار کیا گیا تو جی ایچ کیو کے سامنے پر امن احتجاج کریں۔ 9 مئی واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج آئی ایس آئی نے چرائی ہے۔
مزید پڑھیں:بالآخر عمران خان سے نمٹنے کا فیصلہ ہوگیا
بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ بیرسٹر گوہر اور رؤف حسن کی گرفتاری کی مذمت کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ 9 مئی مقدمات میں مجھے ملٹری جیل بھیجا جائے گا۔
190 ملین پاؤنڈ کیس: نیب نے عمران خان کی ضمانت منسوخی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا
قومی احتساب بیورو نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی 190 ملین پاؤنڈ کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے دی گئی ضمانت کی منسوخی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
چیئرمین نیب لیفٹیننٹ ریٹائرڈ نذیر احمد بٹ کی جانب سے عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے دی گئی ضمانت کیخلاف اپیل سپریم کورٹ میں ایڈیشنل پروسیکیوٹر جنرل نیب کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں:پرویز خٹک کی گواہی، عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرینس میں کیا نیا موڑ لائے گی؟
نیب کی درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانون کے خلاف ہے کیونکہ ملزم کو ضمانت دیتے ہوئے عدالت نے حقائق کو نظر انداز کیا ہے۔ نیب نے اپنی اپیل میں سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ عدالت عظمیٰ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 14 مئی کے فیصلےکیخلاف اپیل کو منظور کرتے ہوئے عمران خان کی ضمانت کا فیصلہ کالعدم قرار دے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں ضمانت کی درخواست پر 14 مئی کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جسے اگلے روز سناتے ہوئے 2 رکنی بینچ نے 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض عمران خان کی ضمانت منظور کرلی تھی۔
عمران خان کیخلاف نیب کا 190 ملین پاؤنڈ کیس ہے کیا؟
نیب کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے موضع برکالا، تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں واقع 458کنال، 4 مرلے اور 58 مربع فٹ زمین عطیہ کی ہے جس کے بدلے میں مبیّنہ طور پر عمران خان نے ملک ریاض کو 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا تھا۔
مزید پڑھیں:190 ملین پاؤنڈز ریفرنس کی سماعت، اڈیالہ جیل پولیس نے صحافیوں کو دھکے کیوں مارے؟
اکتوبر 2022 میں نیب نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کی تھی۔ نیب دستاویزات کے مطابق 3 دسمبر 2019 کو عمران خان کی زیرِ صدارت کابینہ اجلاس میں ملک ریاض کو برطانیہ سے ملنے والی 50 ارب روپے کی رقم بالواسطہ طور پر واپس منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ رقم برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے منی لانڈرنگ کے الزامات پر ضبط کی گئی تھی۔
سابق وزیرِاعظم عمران خان نے 26 دسمبر 2019 کو ریئل اسٹیٹ ڈیویلپر کے حوالے سے کابینہ کے فیصلے کے چند ہفتوں کے اندر القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کے لیے ٹرسٹ رجسٹر کیا تھا جو بعد میں یونیورسٹی کے لیے ڈونر بن گیا۔ نیب کے مطابق ٹرسٹ کی رجسٹریشن سے صرف 3 ہفتے پہلے عمران خان کی کابینہ نے نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے پاکستان کو ملنے والی رقم واپس ملک ریاض کو بالواسطہ طور پر واپس کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس طرح نیب کے مطابق ایک ملزم سے ضبط شدہ رقم واپس اسی کو مل گئی جبکہ یہ رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت تھی مگر اسے ملک ریاض کے ذاتی قرض کو پورا کرنے میں خرچ کیا گیا۔ اس حوالے سے 2019 میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کی سربراہی میں کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا اور معاملے کو حساس قرار دے کر اس حوالے سے ریکارڈ کو بھی سیل کردیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں:190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں پرویز خٹک کا بیان قلمبند، عمران خان کیوں مسکراتے رہے؟
ملک ریاض سے این سی اے نے جو معاہدہ کیا اس کی تفصیلات بھی صیغہ راز میں رکھی گئی تھیں اور این سی اے کے بعد حکومتِ پاکستان نے بھی عوام یا میڈیا کو یہ تفصیلات نہیں بتائیں کہ ریاستِ پاکستان کا پیسہ دوبارہ کیسے ملک ریاض کے استعمال میں لایا گیا تھا۔