غزہ دوسرے ملکوں کی طرح کیوں نہیں ہے؟ ایک ٹانگ سے محروم 6 سالہ مریم کا سوال

بدھ 7 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

غزہ دوسرے ملکوں کی طرح کیوں نہیں ہے، وہ مقبوضہ کیوں ہے؟ یہ سوال پوچھتی 6سالہ مریم کا کہنا تھا کہ ان کی کٹی ہوئی ٹانگ ان کے خاندان کی طرح جنت میں ہے۔ غزہ سے علاج کے لیے قطرمنتقل ہونے والی 6 سالہ مریم غزہ میں اسرائیلی بربریت کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس نے فروری میں اپنے گھر پر اسرائیلی حملے میں ماں باپ، بھائی اور اپنی دائیں ٹانگ کو کھو دیا تھا۔

وائس آف امریکا کی ایک رپورٹ کے مطابق مریم عزم کی ایک تصویر دکھائی دیتی ہیں، وہ نئی وہیل چئیر پر رنگ برنگے پھولوں کے پرنٹ کی اسکرٹ پہنے دوحہ کے ثمامہ کمپلیکس کے ارد گرد گھومتی ہیں، اور کسی بھی جاننے والے کو دیکھ کرمسکراتی ہیں، جبکہ ان کی کٹی ہوئی ٹانگ سے اوپرکا حصہ اسکرٹ سے جھانکتا ہوا نظرآتا ہے۔

قطر کے ثمامہ کمپلیکس میں تقریباً 2ہزار بچے موجود ہیں، جو غزہ کے جنگی میدانوں سے دور ایک نئی زندگی میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کررہے ہیں، ان میں 6 سالہ مریم بھی شامل ہے۔

مزید پڑھیں: اسرائیل نے ایک بار پھر غزہ کو 84 ناقابل شناخت بوسیدہ لاشیں واپس بھیج دیں

مریم اپنے خاندان کی واحد فرد ہیں جو زندہ بچ گئیں، اور ان خوش قسمت لوگوں میں شامل تھیں جنہیں مئی کے شروع میں اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے غزہ سے رفح کراسنگ کی بندش سے قبل علاج کے لیے مصر کے راستے نکالاگیا تھا۔

ان کی 20سالہ آنٹی فرجلہ کا کہنا ہے کہ مریم اب پہلے سے بہت بہتر ہوگئی ہے، ان کی نفسیاتی حالت بھی پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ فرجلہ ہی مریم کا واحد سہارا ہیں جو ان کے ساتھ غزہ سے علاج کے لیے قطر منتقل ہوئی ہیں۔

دوحہ آنے کے بعد مریم نے 2 ماہ زیادہ تر حماد جنرل اسپتال میں گزارے جہاں ان کی ٹانگ کو مکمل طور پر الگ کرنے کے لیے 3 آپریشن کیے گئے۔ اب ثمامہ کمپلیکس میں ان کا نفسیاتی علاج ہورہا ہے، دوحہ کا یہ کمپلیکس ابتدائی طور پر 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کو دیکھنے کے لیے آنے والے پرستاروں کی رہائش کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔

اب اس اسپتال میں غزہ سے طبی علاج کے لیے آنے والے لگ بھگ 2ہزارافراد کو ٹھہرایا گیا ہے، ان ایک ہزار میں سے تقریباً 300 ایسے افراد ہیں، جو اپنے اعضا کھوچکے ہیں۔ اسپتال میں رہنے والے مریضوں کے ساتھ ان کے سر پرستوں کو بھی ٹھہرایا گیا ہے۔

یہ پڑھیں: غزہ: ڈاکٹروں نے مردہ ماں کے رحم میں موجود بچے کو بچا لیا

فرجلہ کا کہنا ہے کہ جنگ زدہ اور تباہ حال غزہ کے بعد خوشحال ملک قطر میں زندگی کو ڈھالنا ان کے اور مریم کے لیے بہت کنفیوزنگ رہا ہے۔ مریم ہر رات کو بہت سے سوال پوچھتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہاں ہر چیز میسر ہے، غزہ دوسرے ملکوں کی طرح کیوں نہیں ہے، وہ مقبوضہ کیوں ہے؟

حماد میڈیکل کارپوریشن کے اسپیشل ایجو کیشن ڈپارٹمنٹ کے سربراہ موسیٰ محمد نے بتایاکہ 3ماہ قبل یہ بچے سکون سے نہیں بیٹھ سکتے تھے اوران پر تشدد کے دورے پڑتے تھے جس کے تحت ان میں سے کچھ دروازوں کو ٹھوکریں مارتے تھے، اپنے ارد گرد کے بچوں اور لوگوں کو مارتے پیٹتے تھے۔

موسیٰ محمد نے بتایا کہ ان سیشنز میں بہتری خاصی مشکل رہی ہے لیکن وقت کے ساتھ اب بچے زیادہ تعاون کرنے لگے ہیں۔ اب ان کے جارحانہ اور سیشنز میں شرکت سےانکار کے رویے تبدیل ہوگئے ہیں اور اب ہم کوشش کررہے ہیں کہ انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ خود سے روزانہ ان سیشنز میں شرکت کریں۔

یہ بھی پڑھیں: غزہ: لاپتا بیٹے کی تلاش میں سرگرداں باپ کی کہانی

واضح رہے فلسطینی پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این آر ڈبلیو اے نے جون کے آخر میں ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ اسرائیلی فوج کی کارروائی کے بعد، جون کے اختتام تک غزہ کے کل 2 ہزار بچے اپنی ایک یا دونوں ٹانگوں سے محروم ہوچکے ہیں یعنی ہر روز لگ بھگ 10بچے اپنی ٹانگوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp