”میرے خلاف زہر اُگلتا پِھرے کوئی“

اتوار 2 اپریل 2023
author image

خالد احمد انصاری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چار دن سوشل میڈیا پر طوفانِ بدتمیزی تھمنے کے بعد حضرت نے اپنے پر لگے الزامات اور موقف کو واضح کرنے کے لیے ایک آڈیو انٹرویو کا سہارا لیا اور سنجیدہ انداز اپناتے ہوۓ پہلے سے طے شدہ سوالات کے جوابات دیے جسے مختلف جگہوں پر الگ ہیڈلاٸنز کے ساتھ شیٸر دیکھا۔۔۔جیسے ”شاہ صاحب کی بات
دل کو لگی“۔۔۔۔”بہترین مدلل بات“۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔

سوچا سنا جاۓ کہ آخر کوئی اتنی بد گوئی کا دفاع کیسے کر سکتا ہے۔۔۔17 منٹ اس کھوج میں لگاۓ لیکن نکلا وہی جو طے تھا یعنی بغیر شرمساری کے پہلے پہل افتخار عارف، امجد اسلام امجد، عطا ٕالحق قاسمی جیسےناموں کا سہارا لے کے اپنی بے تکی بات کے لیے زمین ہموار کی گئ۔

بعد ازاں احمد مشتاق، ظفر اقبال کو لے کر منجمد ادبی ماحول کا نوحہ پڑھا اور پھر آۓ اصل نشانے جون ایلیا کی جانب، یعنی انٹرنیشنل سازش۔اس دفعہ جون کی ذاتی زندگی بھی نشانہ تھی کہ ایک شخص جو کہ اچھا شوہر اورباپ نہ ہو سکا وہ آخر معاشرے کا  آ ئیڈیل  کیونکر ہو سکتا ہے۔۔خوب نکتہ لاۓ ہیں۔۔۔گویا۔۔۔
کیٹس، نطشے، کافکا، منٹو وغیرہ بھی کونسے اچھے لوگ تھے۔لوگ ان سے بھی اجتناب کریں۔

نیچے کمنٹس پڑھیں تو وہی لوگ جو اس وقت بد تمیزی کا دفاع کر رہے تھے اور پوسٹیں لگا لگا کر بیہودگی کو بیلنس کر رہے تھے اب دوسرے طریقے سے مداح سرائی میں مصروف ہیں جیسے ” بات تو شاہ صاحب ٹھیک کر رہے ہیں“۔۔۔”شاہ صاحب تھوڑے جزباتی ہوگٸے تھے ورنہ بات میں دم ہے“ وغیرہ وغیرہ.

بچپن سے یہود و نصاری کی سازشوں کا سنتےچلے آۓ، پھر امریکی و انٹرنیشنل سازش لیکن یہ تو حد ہی  ہو گئی، جون ایلیا، جس کی فیملی اس کے ساتھ نہیں، اس کو معاشرتی بے راہ روی پھیلانے کے لیے بین الاقوامی قوتیں استعمال کر رہی ہیں۔ سُن کر ہی آدمی کا دماغ ماٶف ہو جاۓ۔

او  بھائی یہ کونسی قوتیں ہیں جو ہندوستان میں بھی اسے مقبول کروا رہی ہیں لیکن وہاں سے اس کے خلاف کوٸی آواز بلند نہیں ہو رہی، وہ کونسی قوتیں ہیں جو بڑے گلوکاروں سے اسے نیشنل ٹی وی پہ گوا کے پروموٹ نہیں کر رہیں۔

ایسا معاشرہ جہاں شعر سمجھنے کی استطاعت رکھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کی برابر ہو وہاں جون ایلیا کے اشعار کے زریعے اخلاقی اقدار تباہ کی جارہی ہیں۔ کیا کہنے سبحان اللہ۔۔۔ساتھ ہی اپنی بات کو کچھ سنجیدہ کرنے کے لیے یہ بھی فرما رہے ہیں کہ جون کی شاعری میں کوٸی نظریہ یا مقصدیت نہیں ہے۔

جیسے ” شہر آشوب“، ”دو آوازیں“، ”وقت“، ”آساٸشِ امروز“، ”رمز ہمیشہ“، ”ولایتِ خاٸباں“ کسی اور نے لکھی ہیں۔ کیا سقوطِ ڈھاکا پر ”استفسار“ جیسی قوم کو جھنجوڑنے والی نظم جون کے کریڈٹ پر نہیں؟۔۔۔”درختِ زرد“ جیسی معرکتہ الآرا نظم کا خیال بھی کبھی شاہ جی کے آس پاس نہ پھٹکا ہوگا کہنا تو دُور کی بات ہے۔

جون کی قومی نظمیں تو پڑھو وہ کیسے حالتِ جنگ میں قوم کے شانہ بہ شانہ کھڑا حوصلہ بڑھا رہا ہے۔ ”راموز“ پڑھو تو اس کا جا ہ و جلال ہی بتا دیتا ہے کہ جون کس پاٸے کا شاعر ہے۔

نثر پہ نگاہ ڈالو تو وہ آدمی مسلسل 60 کی دہاٸی سے اپنے انشاٸیوں میں قوم سے مخاطب ہے کہ ”سنبھل جاو اب بھی وقت ہے۔۔۔تم سے بعد آزاد ہونے والی قومیں تم سے بہت آگے بڑھ چکی ہیں۔۔۔نیکی اور داناٸی کو اپنا شعار بناو کہ اسی میں تمھاری فلاح ہے۔۔۔۔آو کہ اختلافِ راۓ پہ اتفاق کر لیں“۔۔۔۔ایسی باتیں کٸی دہاٸیوں تک کرنے والا انھیں سطحی بے مقصد اور بے راہ روی پھیلانے والا لگ رہا ہے اور میرا خیال ہے انھوں نے صرف جون کو مشاعروں میں سنا ہے پڑھا نہیں۔۔۔ورنہ ایسی باتیں ہرگز نہ کرتے۔۔۔نہیں بھاٸی پھر بھی کرتے۔۔۔دماغ پہ لگی ہو تو آدمی کرتا ہی ہے۔۔۔خیر۔۔۔کرنا بھی چاہیے.

ان کی آہ و بکا سے صاف جھلک رہا تھا کہ آخر ایسی شہرت کسی ایسے شخص کو جسے دنیا سے رخصت ہوۓ بیس برس گزر گٸے کیوں مل رہی ہے جب کہ پچھتر مجموعوں کا خالق، بلیک بیلٹ، واریٸر ، یو ٹیوبر، صدارتی ایوارڈ یافتہ پرینکسٹر اور نہ جانے کیا کیا ابھی حیات ہے اور کہیں نہیں ہے، دکھ سمجھ میں آتا ہے۔

دلچسپ پہلو یہ ہے بیشتر شاعر جنھیں سراہے نہ جانے کا شاہ جی شکوہ کر رہے ہیں سرکاری ٹی وی پر پروموٹ ہوۓ۔ مجھے کوٸی دکھاۓ جون کب ٹی وی پر گاٸے گٸے یا ابھی پچھلی دسمبر پر کیے گٸے پروگرام کے علاوہ کب جون پر کوٸی پروگرام کیا گیا؟ جون کبھی بھی سرکاری و دیگر قوتوں کے پسندیدہ شخص نہیں رہے۔۔۔جو شخص اپنا صدارتی ایوراڈ لینے خود نہیں گیا بلکہ بھاٸی عقیل عباس جعفری کو بھیج دیا وہ کیا کسی کا نورِ نظر ہوگا۔

مجھے یاد ہے جب جون بھاٸی کا ”شاید“ کے علاوہ کوٸی مجموعہ شاٸع نہیں ہوا تھا۔۔۔میں ان کی غیر مطبوعہ غزلیں فوٹو اسٹیٹ کرواکے تبرک کی طرح اپنے پاس رکھتا تھا اور اِترا اِترا کے فخریہ انداز سے اپنے حلقے میں سناتا تھا۔۔

کیا کوٸی مجھ سے یہ سازش کے تحت کروا رہا تھا جب سوشل میڈیا تو کیا دیگر میڈیاز پہ بھی جون نہ تھے۔۔۔بقول بھاٸی شکیل عادل زادہ کے ”شعر پرواز کرتا  ہے وہ سرحد کے پار دُور تک جاتا ہے، بس شعر میں پرواز کی صلاحیت ہو“۔ آپ بھی ایسے شعر کہیں۔۔۔تمام سازشیں منظر سے خود غاٸب ہو جا ئیں گی۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp