سینیٹ قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے بلوچستان کی قومی اسمبلی میں نشستیں بڑھانے سے متعلق ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی۔ جس کے بعد کمیٹی نے وزارت قانون کو آئندہ اجلاس تک صوبوں سے مشاورت کرکے جواب دینے کا وقت دیتے ہوئے بل موخر کردیا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا چیئرمین فاروق ایچ نائیک کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس میں آئین کے آرٹیکل 51 میں ترمیم کا معاملہ زیر بحث آیا۔ سینیٹر دنیش کمار نے اعتراض اٹھایا کہ مسلم اقلیتوں کی صحیح نمائندگی نہیں ہے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمارے پاس مردم شمارے کے بعد اقلیتی آبادی کے نئے اعداد و شمار ہیں، 336 کی پارلیمان ہے اس کے مطابق 10 سیٹیں ہیں لیکن مزید دیکھا جاسکتا ہے، جنرل اسمبلی کی 266سیٹوں کے حوالے سے 2 مزید بڑھائی جاسکتی ہیں۔
مزید پڑھیں: حکومت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کون سی نئی اہم قانون سازی کرنے جا رہی ہے؟
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ مناسب تجویز ہے اگر اعداد و شمار کے ساتھ لائی جائے تو تعداد پر غور کرتے ہیں، چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آپ ان کے بل کو دیکھ لیں اور دنیش کمار اپنا ترمیمی مجوزہ لے آئیں اس کو دیکھ کر کلب کرلیا جائے گا۔ 3رکنی ذیلی کمیٹی کے کنوینر سینیٹر ضمیر حسین گھمرو کریں گے۔ سینیٹر حامد خان اور عنوشہ رحمان 3رکنی کمیٹی کے ممبران ہوں گے۔
’بلوچستان سمیت سب صوبوں کا گلہ ہے کہ ان کی نشستیں بڑھائی جائیں‘۔
سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ بلوچستان کا معاملہ الگ ہے کیونکہ بلوچستان میں ایک حلقے میں 3،3 اضلاع ہیں، بلوچستان کا آبادی کے تناسب سے حق ہے کہ نشستیں بڑھائی جائیں۔ جس پر چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائک نے کہا کہ سب کے اتفاق سے آرٹیکل 106 میں ترمیم کے لیے ذیلی کمیٹی بنا رہے ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ بولے کہ صوبائی خود مختاری کی بنیاد پر صوبوں کو جوڑ کر رکھا ہوا ہے، بلوچستان سے پارٹیوں نے کہا کہ وہاں حلقے بہت بڑے ہیں، چاروں صوبائی حکومتوں کو بیٹھنا ہوگا۔ ہماری طرف سے سینیٹر سعدیہ عباسی ذیلی کمیٹی میں بیٹھ جاتی ہیں۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے بلوچستان کی قومی اسمبلی میں نشستیں بڑھانے سے متعلق ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی، سینیٹر سعدیہ عباسی نے ذیلی کمیٹی کا رکن بننے سے انکار کردیا۔ کمیٹی میں بلدیاتی انتخابات کا سینیٹر خالدہ عطیب کا آرٹیکل 140 اے میں ترمیم کا بل بھی زیر بحث آیا۔
سینیٹر خالدہ عطیب نے کہا کہ صوبوں کو اپنے اختیارات نچلی سطح تک تقسیم کرنے کی ضرورت ہے ورنہ عام آدمی مستفید نہیں ہوسکتا، کئی صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرائے ہی نہیں گئے، مالیاتی کمیشن کا فنڈ بھی بلدیات تک تقسیم کیا جائے، ایم کیو ایم کے پاس صوبائی حکومت ہے نا بلدیاتی مگر اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم چاہتے ہیں۔
یہ پڑھیں: سردار اختر مینگل کا استعفیٰ: کیا بلوچستان کی سیاسی شخصیات پارلیمانی سیاست سے بیزار ہوگئیں؟
خالدہ عطیب نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 170 میں درج ہے کہ وفاق سے صوبوں کو ملنے والے فنڈز نے آگے تقسیم ہونا ہے، صوبوں کے نچلی سطح پر فنڈز تقسیم نا کرنے سے نظام مفلوج ہوگیا ہے، ایک یو سی چئیرمین کے پاس اختیار نہیں کہ گٹر کا ڈھکن لگا سکے کیونکہ اس کے پاس فنڈز نہیں، تمام اختیارات صوبائی وزیر بلدیات کو دینے سے عام آدمی تک رسائی رکی ہوئی ہے۔
سینیٹر حامد خان نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جب سے پارلیمنٹیرینز کو براہ راست فنڈز دینے کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ تنازعہ ابھرا، پارلیمنٹیرینز کو براہ راست ترقیاتی فنڈز دینے سے کرپشن بڑھی، ایک قانون ساز کا کام قانون بنانا ہے ناکہ فنڈز لینا۔
سینیٹر ضمیر بولے کہ یہ صوبائی معاملہ ہے اور اس پر فیصلہ کرنا یا لوکل گورنمنٹ کو مضبوط کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے، ماضی میں جب آمر نے لوکل گورنمنٹ کو صوبوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی تو اس کا نقصان ہوا، قانون سازوں کو ترقیاتی فنڈز دینے کی ممانعت آئین میں نہیں ہے۔ لوکل گورنمنٹ سے متعلق یہ بل مسترد کیا جائے۔
سینیٹر شہادت اعوان نے کہا کہ ایک صوبے کے کہنے پر تمام صوبوں کے لیے قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ صوبائی معاملہ ہے اور صوبے خود اپنی قانون سازی کے مجاز ہیں۔ جو صوبہ جس لوکل گورنمنٹ کو جتنی زیادہ استعداد دینا چاہتا ہے دے دے۔
چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ کو اختیارات کی تفویض بہت ضروری ہے مگر آئین کے مطابق چلنا ہے، آرٹیکل 140 اے کی روح سے چلنا ہوگا کیونکہ ہم آئین کے تابع ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں سیکیورٹی صورتحال بہتر بنانے کے لیے ہرممکن اقدامات کیے جائیں، صدر آصف زرداری کی ہدایت
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ وفاقی حکومت ثالث کا کردار تو ادا کر سکتی ہے مگر فیصلہ صوبوں نے کرنا ہے، آئینی الفاظ میں کوئی ابہام نہیں ہے مسئلہ رویوں میں ہے اور وہ آئین میں تبدیلی سے درست نہیں ہوں گے، صوبے آپس میں مل بیٹھ کر ایک لوکل گورنمنٹ فریم ورک تشکیل دے سکتے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ کا معاملہ کسی ایک جماعت کا نہیں پاکستان کی عوام کا ہے۔ خالدہ عطیب نے کہا کہ بلوچستان کی عوام کی محرومی کی وجہ وسائل کی منتقلی نا ہونا ہے۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ بولے کہ ہم تو محرومی کی وجہ سے محروم ہونے والے ہیں۔
تاہم، کمیٹی نے وزارت قانون کو آئندہ اجلاس تک صوبوں سے مشاورت کر کے جواب دینے کا وقت دیتے ہوئے بل موخر کردیا۔