آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیل: سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر اکثریتی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا

جمعرات 3 اکتوبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

‏سپریم کورٹ کے 5رکنی بینچ نے آرٹیکل 63اے نظرثانی اپیل منظور کرتے ہوئے، منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے 5 صفر سے آرٹیکل 63اے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا، فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اپیلیں متفقہ طور پر منظور کی جاتی ہیں، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ اس دوران ‏سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن و دیگر کی اپیلیں بھی سماعت کے لیے منظور کرلی گئیں۔

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کے خلاف نظرثانی درخواست پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ وکیل علی ظفر نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی جانب سے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہونے کی استدعا کی جو مسترد کردی گئی۔ تاہم، علی ظفر نے پی ٹی آئی کی جانب سے بینچ کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دے کر کیس کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔

سماعت کے دوران بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ کل عمران خان سے ملاقات ہوئی۔ یہ کوئی پرائیویٹ ملاقات نہیں تھی، پولیس والے موجود رہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا آپ نے کوئی خفیہ معاملات تو ڈسکس نہیں کرنے تھے، یہ ایک آئینی معاملہ ہے آپ کو بھی پتا ہے۔ علی ظفر بولے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کہتے ہیں کہ بینچ قانونی نہیں اس لیے آگے بڑھنے کا فائدہ نہیں ہے۔

عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کی استدعا

وکیل علی ظفر نے عمران خان کی ذاتی طور پر عدالت میں حاضری کی استدعا کرتے ہوئے چیف جسٹس سے کہا کہ آپ نے پہلے بھی ان کو موقع دیا تھا۔ عمران خان کے عدالت کے بارے میں تحفظات ہیں وہ بات کرنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ پہلی بار عدالت تو نہیں آئے، آپ جانتے ہیں عدالتیں کس طرح سے کام کرتی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عموماً مؤکل کہتا ہے کہ مجھے وکیل کرنے کا موقع دیا جائے یہاں وکیل کہہ رہا ہے کہ مؤکل سے ملاقات کرکے بتاؤں گا۔ آپ بغیر وکالت نامہ رضاکارانہ طور پر پیش ہوئے ہم نے آپ کو خوش آمدید کہا۔ پہلی سماعت پر آپ نے ایک بات کی دوسری سماعت پر دوسری اور اب تیسری پر اور بات کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ ایک بلا جواز قسم کی استدعا کر رہے ہیں، آپ ایک سینئر وکیل ہیں بار کے سابق صدر ہیں۔ بیرسٹر علی ظفر بولے کہ وہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے کچھ کہنا چاہتا ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ آفیسر آف کورٹ ہیں، 5منٹ ضائع ہوچکے ہیں۔ علی ظفر بولے کہ وہ اگلے 7 منٹ میں کمرہ عدالت سے باہر ہوں گے، اگر بانی پی ٹی آئی کو اجازت نہیں دیں گے تو وہ پیش نہیں ہوں گے۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے سماعت کا بائیکاٹ کردیا

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ حکومت کچھ ترامیم لانا چاہتی ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ نے بات کرنی ہے تو آج سے نہیں بلکہ شروع سے کریں، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں جو بات کرنا چاہ رہا ہوں وہ آپ کرنے نہیں دے رہے، چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سیاسی گفتگو کررہے تاکہ کل سرخی لگے۔ علی ظفر نے کہا کہ آج بھی اخبار کی ایک سرخی ہے کہ آئینی ترمیم 25 اکتوبر سے قبل لازمی ہے۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ہمیں اس بات کا علم نہیں ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہدایت ہے کہ اس بینچ کی تشکیل درست نہیں ہے، بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے اس بینچ کے سامنے کارروائی جاری نہیں کرسکتے۔ جس کے بعد انہوں نے سماعت کا بائیکاٹ کردیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم آپ کو عدالتی معاون مقرر کردیں، آپ کو اعتراض تو نہیں، علی ظفر بولے عدالتی حکم پر کوئی اعتراض نہیں۔ عدالت نے علی ظفر کو عدالتی معاون مقرر کردیا۔

آپ فیصلے سے پہلے توہین آمیز بات کررہے ہیں، چیف جسٹس

وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ حکومت آپ کے لیے آئینی ترمیم اور جوڈیشل پیکج لارہی ہے، اگر آپ نے فیصلہ دیا تو یہ ہارس ٹریڈنگ کی اجازت ہوگی، جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ حد کراس کر رہے ہیں، ہم آپ کو توہین عدالت کا نوٹس کرسکتے ہیں، آپ فیصلے سے پہلے توہین آمیز بات کررہے ہیں۔ یہ بہت بڑا بیان ہے ایسی بات کی اجازت نہیں دیں گے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دے رہے ہیں۔ اگر صدارتی ریفرنس پر فیصلہ نہیں رائے ہے، تو اس پر عملدرآمد کیسے ہو رہا ہے؟ کیا صدر نے کہا تھا یہ رائے آگئی ہے، اب ایک حکومت کو گرا دو؟ چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ کو یاد ہے حاصل بزنجو نے ایک سینیٹ الیکشن پر کیا کہا تھا؟ سینیٹ جیسے ادارے میں الیکشن کے دوران کیمرے لگائے گئے۔ علی ظفر صاحب آپ کیوں ایک فیصلے سے گھبرا رہے ہیں؟ آپ دلائل دیں شاید ہم یہ نظر ثانی درخواست مسترد بھی کرسکتے ہیں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کی اصل درخواست تحریک عدم اعتماد میں ووٹنگ سے متعلق تھی، سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس اور آئینی درخواستوں کو یکجاکیا، عدالت نے آئینی درخواستیں یہ کہہ کر نمٹا دیں کہ ریفرنس پر رائے دے چکے ہیں، نظرثانی کا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ کوئی آئین یا سزائے موت سے ناخوش ہوسکتا ہے لیکن عملدرآمد کرنے کے سب پابند ہوتے ہیں، کیا کوئی جج حلف اٹھا کر کہہ سکتا ہے کہ آئین کی اس شق سے خوش نہیں ہوں؟

’ہر ڈکٹیٹر کہتا ہے تمام کرپٹ ارکان اسمبلی اور ایوان کو ختم کر دوں گا، سب لوگ ملٹری رجیم کو جوائن کر لیتے ہیں اور پھر جمہوریت کا راگ شروع ہوجاتا‘۔

علی ظفر نے بطور عدالتی معاون دلائل کا آغاز کیا

بیرسٹر علی ظفر نے بطور عدالتی معاون دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ 63 اے کے حوالے سے صدر نے ایک رائے مانگی تھی، اس رائے کے خلاف نظر ثانی دائر نہیں ہوسکتی، صرف صدر پاکستان ہی اگر مزید وضاحت درکار ہوتی تو رجوع کرسکتے تھے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  نے کہا کہ ایک درخواست آپ نے بھی اس کیس میں دائر کی تھی، علی ظفر بولے کہ ہم نے فلور کراسنگ پر تاحیات نااہلی مانگی تھی، اس پر عدالت نے کہا آپ اس پر پارلیمان میں قانون سازی کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 63 اے کا فیصلہ دینے والے اکثریتی ججز نے رائے کا لفظ لکھا یا فیصلے کا لفظ استعمال کیا؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ یہ تو اس عدالت نے طے کرنا ہے کہ وہ رائے تھی یا فیصلہ تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مطلب آپ اس حد تک نظر ثانی کی حمایت کرتے ہیں کہ لفظ فیصلے کی جگہ رائے لکھا جائے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین میں دیے گئے حق زندگی کے اصول کو کافی آگے بڑھا چکی ہے، کسی بنیادی حق کے اصول کو آگے بڑھانا آئین دوبارہ تحریر کرنا نہیں ہوتا، آئین میں سیاسی جماعت بنانے کا حق ہے، یہ نہیں لکھا کہ جماعت الیکشن بھی لڑسکتی ہے۔ عدالتوں نے تشریح کرکے سیاسی جماعتوں کو الیکشن کا اہل قرار دیا ہے۔ بعد میں اس حوالے سے قانون سازی بھی ہوئی لیکن عدالتی تشریح پہلے تھی، عدالت کی اس تشریح کو آئین دوبارہ تحریر کرنا نہیں کہا گیا۔

تاریخ یہ ہے کہ مارشل لا لگے تو سب ربڑ اسٹیمپ بن جاتے ہیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ جج کون ہوتا ہے یہ کہنے والا کہ کوئی رکن منحرف ہوا ہے؟ پارٹی سربراہ کا اختیار ہے وہ کسی کو منحرف ہونے کا ڈیکلریشن دے یا نہ دے، ارکان اسمبلی یا سیاسی جماعتیں کسی جج یا چیف جسٹس کے ماتحت نہیں ہوتیں، سیاسی جماعتیں اپنے سربراہ کے ماتحت ہوتی ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کا انتخاب کون کرتا ہے؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ ارکان پارلیمان اپنے پارلیمانی لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ووٹ کرنے کا حق تو رکن پارلیمنٹ کا ہے، یہ حق سیاسی جماعت کا حق کیسے کہا جاسکتا ہے، علی ظفر نے کہا کہ ارکان اسمبلی کو ووٹ دینے یا نہ دینے کی ہدایت پارلیمانی پارٹی دیتی ہے، پارلیمانی پارٹی کی ہدایت پر عمل نہ کرنے پر پارٹی سربراہ نااہلی کا ریفرنس بھیج سکتا ہے۔ چیف جسٹس بولے کہ اس حساب سے تو پارٹی کے خلاف ووٹ دینا خودکش حملہ ہے، ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا اور نشست سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر کوئی پارٹی پالیسی سے متفق نہ ہو تو مستعفی ہوسکتا ہے، علی ظفر نے جواب دیا کہ یہ امید ہوتی ہے کہ شاید ڈی سیٹ نہ کیا جائے اور نشست بچ جائے، عدالت نے قرار دیا کہ کسی کو ووٹ کے حق کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانے دیں گے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا یہ تشریح جمہوری ہے؟ ججز منتخب نہیں ہوتے انہیں اپنے دائرہ اختیار میں رہنا چاہیے، آپ تو جمہوریت کے بالکل خلاف بات کر رہے ہیں۔ تاریخ یہ ہے کہ مارشل لا لگے تو سب ربڑ اسٹیمپ بن جاتے ہیں۔ علی ظفر نے جواب دیا کہ ملکی تاریخ کو مدنظر رکھ کر بات کرتے ہیں، تاریخ کچھ اور کہتی ہے۔

جمہوریت کو چلنے دیں، ہارس ٹریڈنگ کینسر ہے کوئی میڈیکل افسر ہی بتا سکتا ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ تاریخ میں تو یہ ہے کہ آمریت آئے تو سب 10 سال چپ کرکے بیٹھ جاتے ہیں، جیسے ہی جمہوریت آتی ہے، سب شروع ہو جاتے ہیں۔ میگنا کارٹا کے بعد برطانوی جمہوریت سے آج تک وہاں کئی لوگ ناخوش ہیں۔ اس کے باوجود وہاں جمہوریت چل رہی ہے، یہاں بھی جمہوریت چلنے دیں۔ علی ظفر نے کہا کہ 63 اے کے فیصلے میں لکھا ہے ہارس ٹریڈنگ کینسر ہے۔ چیف جسٹس بولے کہ یہ غلط الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، جج صرف یہ طے کر سکتا ہے کوئی چیز آئینی و قانونی ہے یا نہیں، یہ کوئی میڈیکل افسر ہی بتا سکتا ہے کینسر ہے یا نہیں۔

جسٹس نعیم اختر نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی نے اپنے دور میں ووٹ نہ گنے جانے کے حوالے سے قانون سازی کیوں نہ کی؟ تحریک عدم اعتماد آنے والی تھی، اس وقت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کردیا گیا، اس وقت پارلیمنٹ کی جگہ سپریم کورٹ کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، ریفرنس دائر کرنے کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد اڑا دی، یہاں چیف جسٹس سے کچھ ججز نے رابطہ کیا تو سوموٹو لیا گیا۔ چیف جسٹس نے بھی ریمارکس دیے کہ ایک بندہ سوچتا رہے میں فلاں فلاں کو قتل کروں گا مگر کرے نہ تو کیا سزا ہوگی؟ کیا میں سرخ اشارہ محض توڑنے کا سوچوں تو کیا میرا چالان ہو سکتا ہے؟

چیف جسٹس اور جسٹس نعیم اختر کے ریمارکس

چیف جسٹس نے کہا کہ جمہوریت اس لیے ڈی ریل ہوتی رہی کہ یہ عدالت غلط اقدامات کی توثیق کرتی رہی۔ جسٹس نعیم اختر افغان بولے کہ کل یہاں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ دے کر دیکھیں، کیا ایسے ڈرا دھمکا کر فیصلہ لیں گے؟ سوشل میڈیا پر چل رہا ہوتا ہے فلاں جج نے ایک ٹھاہ کردیا، فلاں نے وہ ٹھا کردیا۔ اداروں کو اہم بنائیں، شخصیات کو نہیں۔ چیف جسٹس بھی بولے کہ کیا مجھے آپ گارنٹی دے سکتے ہیں کہ میں کل زندہ رہوں گا؟ ہوسکتا ہے یہ میری آخری سانس ہو؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جو کچھ باہر چل رہا ہے اس پر میں آنکھیں بند نہیں کرسکتا، میں اندر کی بات بتا رہا ہوں، اندر کچھ نہیں چل رہا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر کچھ ترامیم پر بات چل رہی ہے تو آپ بھی بیٹھ کر اپنا ڈرافٹ دیں، چیف جسٹس نے بھی کہا کہ پھر کہہ دیا جائے گا آپ نے مشورہ دیا ہے، ہم صرف ساتھ بیٹھنے کا کہہ رہے ہیں، بیٹھ کر جو مرضی کریں۔ علی ظفر بولے کہ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ بھی آپس میں بیٹھ کر ججز رولز بنا لیں، سکون ہو جائے گا۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ آپ نے ایک مشورہ لینا چاہا، ہم نے آپ کو دے دیا ہے۔ علی ظفر بولے کہ میں نے ساڑھے 11 بجے کے بعد جو بھی گفتگو کی وہ بطور عدالتی معاون کی۔ بطور وکیل بانی پی ٹی آئی میں کیس کی کارروائی کا حصہ نہیں ہوں۔

 عدالتی معاون علی ظفر نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آگئے، انہوں نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں فلور کراسنگ کی اجازت موجود ہے، برطانیہ میں اسے ذاتی آزادی قرار دیا گیا ہے، امریکا اور کینیڈا میں بھی یہی پریکٹس ہے، بھارت میں فلور کراسنگ پر نااہلی ہے۔ ووٹ نہ گنے جانے کا قانون یا اصول دنیا میں کہیں نہیں ہے۔

چیف جسٹس کی بیرسٹر علی ظفر کی تعریف

چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے باعزت طریقے سے دلائل دیے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ کے مشورے پر انشاء اللہ غور کریں گے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیو گینی میں منحرف رکن کا ووٹ نہ گنے جانے کا قانون بنایا گیا تھا، نیو گینی میں عدالت نے اس قانون کو کالعدم قرار دیا تھا، چیف جسٹس بولے کہ دنیا میں کسی جمہوری ملک میں ووٹ نہ گننے کا قانون نہیں، امید ہے ایک دن ہم بھی میچیور جمہوریت بن جائیں گے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا صدر مملکت نے بتایا کہ سپریم کورٹ کی اکثریتی رائے سے متفق ہیں یا اقلیتی سے؟ فاروق ایچ نائیک بولے کہ صدر مملکت کی جانب سے ریکارڈ پر کچھ نہیں آیا کہ کس سے متفق ہیں کس سے نہیں۔  چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدالتی معاملہ صدر مملکت کو بھیج دیں کہ وہ فیصلہ کریں کس رائے سے متفق ہیں؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے معاملہ صدر مملکت کو بھجوانے کی مخالفت کردی

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے معاملہ صدر مملکت کو بھجوانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آئینی درخواستیں بھی ریفرنس کےساتھ ہی نمٹائی گئی ہیں، آئینی درخواستیں نمٹانے کا معاملہ صدر مملکت کو نہیں بھیجا جا سکتا، سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ ریفرنس پر آنے والی رائے کی ریاست پابند ہوگی، ریاست سپریم کورٹ کی رائے کی پابند ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی رکن ووٹ نہ ڈالے تو وہ بھی نااہل ہوسکتا ہے، ہوسکتا ہے جماعت کا سربراہ رکن کے نہ پہنچنے کی وجہ تسلیم کرلے۔

فاروق ایچ نائیک بولے کہ حسبہ بل کیس کے مطابق ریفرنس پر رائے جس نے مانگی اس پر رائے کی پابندی لازم ہے، چیف جسٹس نے پوچھا کہ اگر صدر مملکت رائے پر عمل نہ کرے تو کیا ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت صدر مملکت کیخلاف کارروائی نہیں کرسکتی۔ فاروق ایچ نائیک نے منحرف رکن سے متعلق پی ٹی آئی کی عائشہ گلالئی کیس کا بھی حوالہ دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp