وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئینی بینچ سپریم کورٹ کے موجودہ ججز سے ہی بنے گا، 12رکنی کیمٹی دوتہائی اکثریت سے چیف جسٹس کا نام بھیجے گی۔ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال ہوگی۔ چیف جسٹس پاکستان کی مدت ملازمت 3سال طے کی گئی ہے، ابھی تک جسٹس منصورعلی شاہ کی مدت 3سال سے کچھ عرصہ زیادہ بن رہی ہے۔ اس دوران انہوں نے انکشاف کیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے توسیع لینے سے 3 بار انکار کیا تھا۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سید خورشید شاہ صاحب نے تحمل سے عمل جاری رکھا، بلاول بھٹو نے انتھک محنت کی اور مولانا فضل الرحمان سے تسلسل میں میٹنگز رکھیں، جس کے نتیجے میں آج کابینہ نے مسودے کی منظوری دی ہے۔
مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ نے 26ویں آئینی ترمیمی مسودے کی منظوری دے دی، وزیر اعظم کی قوم کو مبارکباد
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جمیعت علما اسلام (ف) اپنی ترامیم فلور پر لے آئی تو ان کے حق میں ووٹ دیں گے۔ آج آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں پیش ہونے جا رہی ہے، یہ وہی 26نکاتی مسودہ ہے، جو پارلیمانی کمیٹی نے پیش کیا۔ اسی مسودے پر سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے کرایا گیا تھا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جے یو آئی نے آئین میں 5نکات کی تجویز دی ہے، اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹس کی ٹائم لائین کو ایک سال کرنے کی تجویز ہے، خصوصی کمیٹی کی پاس کی گئیں تمام ترامیم ڈرافٹ کا حصہ ہیں۔ اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے بعد ترمیمی مسودے پر اتفاق رائے ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم آج پارلیمنٹ میں پیش ہونے جارہی ہے، مسودہ 26 نکات پر مشتمل اور متفقہ ہے۔ صوبوں میں آئینی بینچز کا میکنزم بھی شامل کیا گیا ہے، جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے اس میں شقیں شامل ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کا سربراہ چیف جسٹس ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: آئینی ترمیم منظور نہ ہونے سے حکومت کو کیا نقصان ہوگا؟
انہوں نے مزید کہاکہ 4سینیئرججز بھی جوڈیشل کمیشن میں ہوں گے، صوبائی جوڈیشل کمشین کی شکل وہی رہے گی، جو نئی چیز شامل کی گئی وہ پرفارمنس ایوے لوایشن ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ ہائیکورٹ کے ججز کی پرفارمنس دیکھے گا۔
وزیر قانون نے کہا کہ ہائیکورٹ میں بینچ کے قیام کے لیے صوبے کی اسمبلی کو چوائس دی گئی ہے، صوبائی اسمبلی 51فیصد کے ساتھ پاس کرے گی تو وہاں بھی یہ نافذ العمل ہو جائے گی۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر 5،5 ایڈوائزرز کی اجازت ہے، صوبائی ایڈوائز کے لیے بھی ترمیم کی جا رہی ہے، عدلیہ میں اصلاحات کے لیے مزید ترامیم کا مسودہ بھی آنے والے دنوں میں آئےگا۔