جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے آئین میں 26 ویں ترمیم کے لیے بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے علم میں تھا کہ میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت کی بات کی گئی ہے لیکن میثاق جمہوریت نہ آئین کا متبادل ہے نہ قانون کا متبادل ہے، یہ محض ایک اخلاقی معاہدہ ہے، جمہوری سفر میں مشکل پیش آئے گی تو اس سے رہنمائی حاصل کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں:آئینی ترمیم پر صدر مملکت کے دستخط کی تقریب ملتوی
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پارلیمنٹ کی آزادی اور خود مختاری کے لیے آئینی ترامیم ناگزیر تھیں، ترمیم کے لیے بلاول بھٹو زرداری ، میاں نواز، وزیر اعظم شہباز شریف اور ایوان میں موجود تمام ممبران کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ایوان سے میری تقریر تنقید نہیں تعریف پر مبنی ہوگی، آئینی ترمیم کے لیے کی جانے والی کوششوں میں پاکستان تحریک انصاف بھی میرے ساتھ رہی، ایک جانب حکومت اور اسی کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بھی مشاورت مسلسل جاری رہی۔
مزید پڑھیں:قومی اسمبلی کا اجلاس: میاں نواز شریف نے ایوان کو کون سا شعر سنا کر ممبران سے داد حاصل کی؟
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آئین ایک ٹھوس اور مستحکم دستاویز ہوتی ہے جس میں ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت ناگزیر ہوتی ہے، آج ہم نے اس مرحلے سے گزر کر پارلیمنٹ کو سپریم بنا دیا ہے، اب اس میں قانون سازی بھی اصل جمہوری روایات کی روح کے مطابق ہونی چاہیے کیو نکہ یہاں جھگڑا شخصیات کا ہے، ایک جج سے حکمران پارٹی اور دوسرے سے حزب اختلاف گھبرا رہی ہوتی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ججوں کی مدت ملازمت بڑھانے کی باتیں ہوئیں تو میں نے اس وقت اس ہاؤس میں کہا تھا کہ اگر یہ ترامیم ہوں گی تو محض شخصیات سے متعلق ہوں گی، اس لیے میرا مؤقف تھا کہ کسی فرد واحد کے لیے یہ ترامیم نہ لائی جائیں۔ آئینی ترامیم کو شخصیات کے تنازع میں یرغمال نہ کیا جائے۔
مولانا فضل الرحمان نے بتایا کہ آئینی ترمیم کا ابتدائی مسودہ جو انہیں دکھایا گیا اس میں 56 شقیں تھیں، اب جو مسودہ منظور ہو رہا ہے اس میں 22 شقیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:بی این پی کا اپنے 2 سینیٹرز سے سینیٹ کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے مدنظر تھا کہ 2006 میں ن لیگ اور پی پی کے درمیان میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے تو اسے پذیرائی ملی اور اس میں آئینی عدالت کا تذکرہ بھی تھا۔
انہوں نے کہا میں ماضی میں جب نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری کے ساتھ کی گئی زیادتیوں پر آواز اٹھاتا رہا ہوں، تو آج بانی پی ٹی آئی عمران خان پر ہونے والی سختیوں کی بھی مذمت کروں گا۔ کوئی قاعدے قانون کے تحت جلسے کرتا ہے تو اسے اجازت ہونی چاہیے، پی ٹی آئی شکایت کررہی ہے کہ ان کا لیڈر جیل میں ٹھیک حالت میں نہیں ہے۔