عاصمہ جہانگیر کا طعنہ اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ذات سے جڑے تنازعات

جمعرات 24 اکتوبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کل بطور چیف جسٹس آخری دن ہے جس کے بعد وہ ریٹائر ہوجائیں گے اور نئے چیف جسٹس یحیٰی آفریدی ان کی جگہ ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک ایسے چیف جسٹس ہیں، جنہوں نے اپنے اثاثوں کی مکمل تفصیلات سپریم کورٹ ویب سائٹ پر جاری کیں، 2023 میں بظاہر ناممکن نظر آنے والے انتخابات کا انعقاد کروایا، پارلیمان کی حاکمیت کے اصول کو نہ صرف مانا بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کر کے دکھایا، اپنی ذاتی زمین بلوچستان حکومت کو دی لیکن اس سب کے باوجود وہ اپنی تعیناتی سے قبل اور تعیناتی کے بعد تنازعات کی زد میں رہے۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے توسیع لینے سے 3 بار انکار کیا، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا انکشاف

چیف جسٹس تعینات ہونے سے قبل ان کے اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ساتھ تعلقات بے حد خراب تھے، حتٰی کہ اس وقت پوری سپریم کورٹ تقسیم ہوچکی تھی اور اب ریٹائرمنٹ سے قبل ان کے جسٹس منصور علی شاہ کے ساتھ تعلقات زیادہ بہتر نہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے کردار کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی لیکن بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے لے کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بننے تک اگر دیکھا جائے تو قاضی فائز عیسٰی کی ذات سے بہت سارے تنازعات جڑے رہے۔ تاہم، وہ اکثر تنازعات میں سرخرو ہوئے۔ یہاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر کے درمیان ہونے والے ایک تنازعے کا ذکر قارئین کے لے باعث دلچسپی ہو سکتا ہے۔

عاصمہ جہانگیر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو لاٹری کا طعنہ کیوں دیا؟

اپریل 2012 میں بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں میمو گیٹ اسکینڈل کی سماعت جاری تھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی وفاقی حکومت کے بنائے گئے میمو گیٹ کمیشن کے سربراہ تھے جس میں ان کے ساتھ اسلام آباد ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان بھی شامل تھے۔ میمو گیٹ اسکینڈل اور اس کے نتیجے میں بننے والے عدالتی کمیشن کو بعض سیاسی اور قانونی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور تنقید کرنے والوں میں مرحومہ عاصمہ جہانگیر بھی شامل تھیں جن کو کمیشن کی جانب سے میمو گیٹ اسکینڈل کے مرکزی کردار حسین حقانی کی شہادت قلمبند کیے جانے پر اعتراض تھا اور ان کے تنقیدی بیانات میڈیا کی زینت بھی بنے۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے اب تک کے اہم فیصلے

عاصمہ جہانگیر کے بیانات پر عدالتی کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کمیشن کی کارروائی کے دوران ان کو خبردار کیا کہ ان کا وکالت کا لائسنس معطل کیا جا سکتا ہے، جس پر مرحومہ عاصمہ جہانگیر نے زوردار طریقے سے ردعمل دیتے ہوئے کہا، ’ہمیں یہ وکالت لاٹری میں نہیں ملی جو آپ چھین لیں گے۔‘

لاٹری سے عاصمہ جہانگیر کی مراد جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا بلوچستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بننا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے جنرل پرویز مشرف کی جانب سے 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف بطور احتجاج پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججز کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا تھا۔ جب جولائی 2009 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایمرجنسی کے نفاذ کو خلاف آئین قرار دیا تو بلوچستان ہائیکورٹ کے تمام جج صاحبان مستعفی ہوگئے تھے اور بلوچستان ہائیکورٹ میں ایک آئینی خلا پیدا ہو گیا تھا۔ اس وقت قاضی فائز عیسٰی کو براہ راست بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تعینات کردیا گیا تھا۔ جس کے بعد ان کی مشاورت سے بلوچستان ہائیکورٹ میں ججوں کا تقرر عمل میں آیا تھا۔ مرحومہ عاصمہ جہانگیر نے اس سیاق و سباق میں بات کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو لاٹری کے ذریعے چیف جسٹس بننے کا طعنہ دیا تھا۔

چیف جسٹس بننے سے پہلے تنازعات

جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے بطور جج فیصلوں پر تنازعات بھی ہوتے رہے اور ایسا ہی ایک فیصلہ انہوں نے اکتوبر 2018 میں نیب کی حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس دوبارہ کھولنے سے متعلق اپیل مسترد کرکے دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس بینچ کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسٰی کررہے تھے، نیب اس بینچ سے اپیل کررہا تھا کہ 18 سال پرانا نیب ریفرنس دوبارہ سے کھولنے کی اجازت دی جائے۔ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے نیب کی اپیل یہ کہہ کر مسترد کردی تھی کہ نیب کے پاس یہ ریفرنس دوبارہ سے کھولنے کے لیے کوئی مضبوط جواز نہیں۔ اس معاملے پر بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان کو سوشل میڈیا پر ٹرول بھی کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور حالیہ عدالتی بحران

تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے فیض آباد پل پر دیے گئے دھرنے کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر بھی کچھ عناصر کی جانب سے تنازعہ کھڑا کیا گیا تھا۔ فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سیکیورٹی ایجنسیوں کے کردار پر تنقید کی تھی اور میڈیا پر لگائی گئی پابندیوں کو بھی اظہار رائے کی آزادیوں کے خلاف قرار دیا تھا۔ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے 3 ماہ بعد جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنی اہلیہ کے نام جائیدادیں اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیں۔ صدارتی ریفرنس توجون 2020 میں ختم ہوگیا اور اپریل 2022 میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اعتراف کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجنا ان کی غلطی تھی۔

چیف جسٹس بننے سے قبل 4 ماہ چیمبر ورک تک محدود رہے

جسٹس قاضی فائز عیسٰی بطور چیف جسٹس تعیناتی سے پہلے تقریباً 4 ماہ سماعت کرنے والے بینچوں کا حصہ نہیں بنے۔ 13 اپریل 2023 سے انہوں نے خود کو چیمبر ورک تک محدود کر لیا تھا  کیونکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سپریم کورٹ کے حکم امتناع کے بعد انہوں نے تحریری طور پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اس مقدمے کا فیصلہ دیں بصورت دیگر تمام بینچوں کی تشکیل غیرقانونی ہے۔ لیکن سابق رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی کی جانب سے ایک سرکلر جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ وہ فیصلہ غیرمؤثر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا تنازعات سے بھرپور دور اور ان کے متنازع فیصلے

فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے معاملے پر جب جسٹس بندیال نے 9 رکنی بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو شامل کیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا جائے، بصورت دیگر وہ اس بینچ کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس معاملے میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی جب بینچ میں آئے تو انہوں نے جسٹس بندیال پر تنقید کی اور کہا کہ وہ اس معاملے میں سماعت سے معذرت نہیں کررہے لیکن وہ اس بینچ کی تشکیل کو غیرآئینی سمجھتے ہیں۔

چیف جسٹس بننے کے بعد کے تنازعات

اگر شدت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو جس معاملے کی وجہ سے سب سے زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا وہ ان کا 13 جنوری 2024 کا فیصلہ تھا جس میں انہوں نے پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلوں کو برقرار رکھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی نشان ’بلے‘ کے لیے دائر درخواستیں مسترد کردی تھیں۔ پاکستان تحریک انصاف چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم بینچ کے سامنے یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ اس نے انٹراپارٹی انتخابات کرائے ہیں، جس بنا پر انہیں بلے کا انتخابی نشان نہیں دیا گیا۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان تحریک انصاف کو انتخابات میں نقصان پہنچا اور وہ مخصوص نشستیں حاصل کرنے میں تاحال ناکام ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سپورٹرز نے اس معاملے پر انہیں شدید ٹرولنگ کا نشانہ بنایا اور اب تک یہ صورتحال باقی ہے۔

مخصوص نشستوں کا تنازعہ

انتخابی نشان والے معاملے کا ہی ایک اہم حصہ مخصوص نشستوں کا مقدمہ تھا جس میں چیف جسٹس اور 4 دیگر جج صاحبان کے فیصلے کے برخلاف 8 جج صاحبان نے پاکستان تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیا۔ لیکن اس فیصلے پر تاحال عمل درآمد نہیں ہو پایا اور 22 اکتوبر کو چیف جسٹس نے اس معاملے پر اپنا اقلیتی تفصیلی فیصلہ بھی جاری کردیا جس میں انہوں نے اکثریتی فیصلے کو آئین کے منافی قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی ججز کی وضاحت پر اہم سوالات اٹھا دیے

کمشنر راولپنڈی کا الزام

فروری 2024 میں انتخابات کے بعد کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے الزام عائد کیا تھا کہ انہیں دھاندلی کے احکامات جاری کیے گئے تھے، دھاندلی میں چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر ملوث ہیں۔ چیف جسٹس نے ان الزامات کی تردید کی اور بعد میں کمشنر راولپنڈی نے بھی اپنے الزامات واپس لے لیے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے دور میں 2 جج مستعفی ہوئے

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا دور ججوں کے درمیان کشمکش کا دور تھا۔ ان کے دور میں 3 ججوں کے خلاف ریفرنسز پر سپریم جوڈیشل کونسل نے سماعت کی۔ جس میں جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف ریفرنس خارج کردیا گیا جبکہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی جو کہ مستعفی ہو گئے تھے ان کے خلاف کارروائی جاری رکھ کر انہیں برطرف کیا گیا۔ اس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریفرنس کی کارروائی سے قبل استعفٰی دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مستعفی جج مظاہر نقوی کیخلاف مجموعی طور پر 5 الزامات ثابت ہوئے، سپریم جوڈیشل کونسل

سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس شوکت عزیز کا معاملہ بھی قابل ذکر ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کو ختم کیا اور انہیں بطور ریٹائرڈ ہائیکورٹ جج بحال کیا۔

چیف جسٹس کے عمومی فیصلے

17 ستمبر 2023 کو چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے عام نوعیت کے کئی فیصلے کیے جن میں زیادہ کا تعلق خواتین کے حق وراثت سے تھا۔ کئی ایسے مقدمات میں انہوں نے بیوہ اور یتیم خواتین کو جائیداد میں حصہ نہ دینے اور مقدمے بازی کو طول دینے پر ان کے رشتے داروں کو جرمانے کیے لیکن یہ مقدمات اس نوعیت کے نہیں ہوتے کہ مشہور ہوسکیں۔ پاکستان میں مشہور ہونے والے زیادہ تر فیصلے سیاسی جماعتوں سے متعلق ہوتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp