اس عدلیہ کی تاریخ اور دامن میں تھا ہی کیا؟ فقط یہی کہ ابتدائی سالوں میں ہی جب جمہوریت پر پہلا وار کیا گیا اور مرکزی اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین نے فیڈرل کورٹ کے دروازے پر التجائی دستک دی تو بروٹس کے کردار میں نمودار ہونے والا شخص اس بد نصیب ملک کا پہلا منصف اعظم جسٹس منیر ہی تھا۔ جس نے اشارہ ابرو پا کر جمہوریت کا سر اڑا دیا اور فریادی مولوی تمیز الدین پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتے رہ گئے!
آگے حسین شہید سہروردی سے فیروز خان نون تک کو کچلتے ہوئے “نظام عدل” ایوبی اور یحییٰ مارشل لاوؤں کے راستوں سے کانٹے چنتے اور جمہوریت کو کچلتے اس نہج پر بھی پہنچ گیا کہ آئینی تلوار سفاک جسٹس مولوی انوار الحق کے ہاتھ آئی اور اس بار جمہوریت کے ساتھ ساتھ منتخب وزیراعظم کا سر بھی اڑا کر ڈکٹیٹر کو دان کر دیا!
صرف اسی پر اکتفا نہیں ہوا بلکہ انہی عدالتوں نے کسی ناجائز بچے کی مانند نظریہ ضرورت کو بھی جنم دیا۔
جو ایک مستقل طعنہ بن گیا۔ ظاہر ہے یہ فضا اب کسی جسٹس کک یا جسٹس ہنس راج کھنہ دینے سے تو رہی۔ سو ارشاد حسن خان، عبدالحمید ڈوگر، ثاقب نثار، کھوسہ، گلزار اور بندیال تو کیا بلکہ مظاہر نقوی جیسے شرمناک کردار ہی جننے لگی!
پھر چشم فلک دیکھتا رہا کہ جس جگہ کو معزز ترین ہونا چاہیے تھا وہ اس سطح پر آ گیا کہ رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔ اب اس ایوان عدل کی فسوں گری ملاحظہ ہو کہ اقامہ پانامہ بننے اور منتخب وزیراعظم کو ہڑپ کرنے لگا۔
ٹرکوں والا معزز ججز کی چڑ بنتی گئی۔ بھری عدالت میں پانچ ممبران تو میں آج بھی اِدھر اُدھر کر سکتا ہوں کی صدائیں چیف جسٹس کے منہ سے سنی جانے لگی۔ انصاف فراہم کرنے کی بجائے منصف اعظم شیخ رشید کی انتخابی کمپین چلاتے، چندہ اکٹھا کرتے، ہسپتالوں پر چھاپے مارتے اور ڈیم بناتے پائے گئے۔
گھریلو خواتین کرش بنتی اور فیصلوں پر اثر انداز ہوتی دیکھی گئیں۔ ہائے رافعہ کے جملے ایوان عدل کے مکینوں کی پگڑیوں کو داغدار کرتے گئے اور سلسلہ کالے بھونڈوں کی بد رنگ اور تضحیک آمیز علامتوں ٹک پھیلتا گیا۔ انہی بانجھ موسموں اور بے مہر رتوں کے آس پاس ان تماشوں سے الگ تھلگ ایک جج ایسا بھی تھا جس نے اپنی ذمہ داریوں اور منصب کے تقاضوں پر فوکس کرتے ہوئے فیض آباد دھرنا کیس کا دلیر اور چونکا دینے والا فیصلہ دیا۔ جس کے بعد وہ سرکش اور منہ زور طاقت کی زد پر تھا۔
اب وہ اپنی اہلیہ سمیت سفاک اور جابر سپاہ کے رحم و کرم پر ہی تھا۔ لیکن ایک دلربا جوانمردی کے ساتھ وہ اپنی اہلیہ کا ھاتھ تھامے صبح سے شام تک معزز جج ہوتے ہوئے ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا ہوتا اور ذاتی عناد پر اپنی اہلیہ تک کے ساتھ بد تمیزی کی آخری حدود کو پھلانگتے سوالات کا جواب دیتا اور جھوٹے الزامات پر مخالفت کا ھر راستہ بند کرتا جاتا۔
پھر ایک سہ پہر کو اس کے بری ہونے کا اعلان کر دیا گیا کیونکہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بچا ہی نہیں تھا!
لیکن وہی تو تھا جو ناسازگار موسموں اور نامساعد حالات میں بھی امید کا استعارہ تھا۔ کیونکہ آنے والے دنوں میں چیف جسٹس کے اس منصب کو سنبھالنا بھی تھا جس قابل احترام منصب کو اس کے پیش رووں نے قابل رحم بنا دیا تھا اور پھر وہ چیف جسٹس بنے بھی!
لیکن آگے کا منظر نامہ کہیں زیادہ خطرناک بھی تھا اور خوفناک بھی!
کیونکہ نہ صرف ہائبرڈ ریجیم کے بطن سے نکلی جاہلیت کا غول سوشل میڈیا کی فصیلوں پر گلی گلی ایستادہ تھا بلکہ اس کے اپنے ہی ارد گرد پھیلے رفقاء سے طاقتور منطقوں کے در و بام تک فتنہ سازوں کی فوج ظفر موج ہی تھی۔ اس پر طاقتور حملہ ان مائیک بدست یوٹیوبرز کے ذریعے کیا گیا جو صبح سے شام تک دنیا جہان کی ہر برائی اور زیادتی کو اٹھا کر اس دلیر منصف کے سر ڈالنے کے کام پر لگ گئے۔ سر شام سوشل میڈیا کے بازار میں ایک غول جاہلیت کے ہاتھوں یہی “سودا” بکنے اور اچھی خاصی کمائی کا ذریعہ بننے لگا تھا۔ سو کہاں کی صحافت اور کہاں کا خوف خدا؟
تاریخ کی بدترین ٹرولنگ اور ٹرائل اسی عہد ستم ساز میں ہوئی اور تاریخ نے اسے تھام بھی لیا۔ لیکن پسپائی اور خوف تو اس شخص کی فطرت ہی میں شامل نہ تھے۔ سو ڈٹ گیا اور تاریخی فیصلے دینے لگا۔
آغاز خود سے کیا اور پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں اپنے ہی اختیار کو دوسروں کے ساتھ بانٹ لیا۔ 45 سال سے سپریم کورٹ کے لیے خوفناک طعنہ بنے اجرتی قاتل کا داغ دھو دیا اور بھٹو پھانسی کو غلط قرار دیا۔ پبلک انٹرسٹ کے کیسز کو عوام کے سامنے لائیو نشر کرنے کا حکم دے کر بند دروازوں اور وٹس ایپ احکامات کا سلسلہ اڑا کر رکھ دیا۔ بھری عدالت میں کہا کہ یہاں تو ایسے چیف جسٹسز کی تصاویر بھی آویزاں ہیں جنہوں نے آمروں کو تحفظ دیا۔
یہ تصویریں یا تو ہٹا دی جائیں یا الٹا لٹکا دی جائیں۔ آئین ری رائٹ کرنے کے شرمناک فیصلے 63A کی تصحیح کی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی طرف بڑھا۔
خواتین کو وراثتی منتقلی پر شاندار ججمنٹ دی اور مظاہر نقوی کی سہولت کاری کے اس فیصلے کو پاوں تلے کچل دیا جو جسٹس وقار سیٹھ فیصلے کے خلاف دیا گیا تھا۔ فیصلے میں لکھا کہ پرویز مشرف ایک ڈکٹیٹر تھا اور جمہوریت پر ڈاکہ ڈالنے کے جرم میں پھانسی کی سزا برقرار رکھی جاتی ھے!
فیصلوں کی شاندار تاریخ مختصر عرصے ہی میں رقم ہوئی کیونکہ وہ شخص ایک منصف ہی تھا، آمرانہ قوتوں یا سیاسی فتنوں کا سہولت کار نہیں، اور اس شخص کا نام جسٹس فائز عیسیٰ تھا!
جن کے منصب اور علم کو آج اس جیسے نیک نام جسٹس یحییٰ آفریدی نے تھام لیا ہے! جن کے سامنے تاریخ قلم بدست بیدار کھڑی ہے۔ کیونکہ ایک طرف جسٹس منیر سے ثاقب نثار اور بندیال تک کی بد رنگ اور ڈراؤنی لیگیسی ہے اور دوسری طرف جسٹس فائز عیسیٰ کی دلربا اور سربلند لیگیسی!