چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آج اپنے عہدے سے ریٹائر ہورہے ہیں۔ انہوں نے بطور جج 15 سال اور بطور چیف جسٹس 13 ماہ ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق پاکستان کے پسماندہ ترین صوبے بلوچستان کے علاقے پشین سے ہے جبکہ آپ کی پیدائش 26 اکتوبر 1959 کو بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ہوئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مرحوم قاضی محمد عیسیٰ کے صاحبزادے ہیں جو تحریک پاکستان میں سب سے آگے تھے اور پاکستان سے پہلے ریاست قلات کے وزیر اعظم قاضی جلال الدین کے پوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بطور چیف جسٹس آخری دن، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہم فیصلے کون سے رہے؟
جسٹس عیسیٰ کے والد بلوچستان سے پہلے شخص تھے جنہیں بار آف انگلینڈ اینڈ ویلز (مڈل ٹیمپل) میں بلایا گیا۔ لندن سے واپسی پر آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر قائد اعظم محمد علی جناح نے انہیں مسلم لیگ کا صوبائی صدر نامزد کیا جسے انہوں نے بلوچستان میں ایک طاقتور سیاسی قوت بنا دیا۔ قاضی محمد عیسیٰ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ بلوچستان سے آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے واحد رکن تھے۔ جسٹس عیسیٰ کی والدہ سیدہ عیسیٰ ایک فعال سماجی کارکن تھیں اور انہوں نے تعلیم، بچوں اور خواتین کی صحت کے مسائل پر توجہ مرکوز کرنے والے اسپتالوں اور دیگر خیراتی اداروں کے بورڈز میں اعزازی حیثیت سے کام بھی کیا۔
قاضی فائز عیسیٰ کا تعلیمی سفر
قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی بعد ازاں وہ او لیولز اور اے لیولز کے لیے کراچی گرامر اسکول چلے گئے۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے قاضی فائز عیسیٰ نے لندن کا رخ کیا جہاں انہوں نے شعبہ قانون میں بی اے آنرز کیا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے بار پروفیشنل کے لیے لندن میں قائم ادارے اننگز آف کورٹس اسکول کا رخ کیا۔
قاضی فائز عیسیٰ کا کیریئر
قاضی فائز عیسیٰ کی قانون سے وابستگی 45 سال کے عرصے پر محیط ہے۔ قانون کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد انہوں نے تقریباً 27 سال تک بطور وکیل اپنے فرائض سر انجام دے۔ 30 جنوری 1985 کو قاضی فائز عیسیٰ بطور ایڈوکیٹ بلوچستان ہائیکورٹ میں تعینات ہوئے جبکہ 21 مارچ 1998 کو سپریم کورٹ میں ایڈوکیٹ کے طور پر اپنے فرائض سر انجام دینے لگے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے 5 اگست 2009 کو بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات ہوئے جبکہ انہوں نے 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ کے جج کے طور پر اپنا چارج سنبھالا۔
یہ بھی پڑھیں: عاصمہ جہانگیر کا طعنہ اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ذات سے جڑے تنازعات
قاضی فائز عیسیٰ کی جدوجہد
جسٹس عیسیٰ نے آئین، قانون، اسلام اور ماحولیات سمیت متنوع موضوعات پر پاکستان کے سب سے بڑے انگریزی اخبار کے لیے لکھا اور ‘پاکستان میں ماس میڈیا کے قوانین اور ضوابط’ ایشین میڈیا انفارمیشن اینڈ ریگولیشنز کے ساتھ مل کر لکھا۔ انہوں نے پلڈاٹ کے ساتھ ’بلوچستان: کیس اینڈ ڈیمانڈ‘کے عنوان سے رپورٹ بھی لکھی۔ قاضی فائز عیسیٰ وہ پہلے جج تھے جنہوں نے اپنے اور اپنی اہلیہ کے اثاثے رضاکارانہ طور پر سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ڈالے، حکومت سے نہ تو کوئی پلاٹ لیا، نہ گاڑی اور نہ کوئی پروٹوکول ہی لیا۔ بطور چیف جسٹس پیدل بھی سپریم کورٹ آتے رہے، انہوں نے زیارت میں اپنی آبائی زمین قائد ریزیڈینسی اور بلوچستان حکومت کو عطیہ کر دی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہم فیصلے
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فوجی عدالتوں کے قیام کی آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کا اقلیتی فیصلہ دینے والے بینچ کا حصہ اور میمو گیٹ کمیشن کے سربراہ بھی رہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ بھی دیا جس میں انہوں نے حساس اداروں کے کردار پر تنقید کی تھی۔ اس فیصلے کے 3 ماہ بعد پی ٹی آئی حکومت نے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک صدارتی ریفرنس بھی دائر کیا، جسے سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ بینچ نے کثرت رائے سے کالعدم قرار دیا۔
بطور چیف جسٹس اہم فیصلے
17 ستمبر 2023 کو چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 4 سال سے نہ ہونے والی فل کورٹ میٹنگ بلائی، 9 سال بعد سپریم کورٹ کا فل کورٹ تشکیل دیا جس نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی توثیق کی، اس قانون کے تحت بینچوں کی تشکیل اور مقدمات مقرر کرنے کا چیف جسٹس کا صوابدیدی اختیار 3 رکنی ججز کمیٹی کو سونپ دیا گیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں شفافیت کے لیے عوامی مفاد کے مقدمات کی براہ راست نشریات جیسا اہم فیصلہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت دائر
چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے عام نوعیت کے کئی فیصلے کیے جن میں زیادہ کا تعلق خواتین کے حق وراثت سے تھا۔ کئی ایسے مقدمات میں انہوں نے بیوہ اور یتیم خواتین کو جائیداد میں حصہ نہ دینے اور مقدمے بازی کو طول دینے پر ان کے رشتے داروں کو جرمانے کیے لیکن یہ مقدمات اس نوعیت کے نہیں ہوتے کہ مشہور ہوسکیں۔
قاضی فائز عیسیٰ نے جنرل پرویز مشرف کی سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا، ذوالفقار علی بھٹو قتل سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں عوامی نمائندوں کی 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیا گیا، ارکان پارلیمنٹ سے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے نام پر ووٹ کا حق چھیننے سے متعلق آئین ری رائٹ کرنے کا فیصلہ بھی کالعدم قراردیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے دور میں 2 جج مستعفی ہوئے
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا دور ججوں کے درمیان کشمکش کا دور تھا۔ ان کے دور میں 3 ججوں کے خلاف ریفرنسز پر سپریم جوڈیشل کونسل نے سماعت کی۔ جس میں جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف ریفرنس خارج کردیا گیا جبکہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی جو کہ مستعفی ہو گئے تھے ان کے خلاف کارروائی جاری رکھ کر انہیں برطرف کیا گیا۔ اس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریفرنس کی کارروائی سے قبل استعفٰی دے دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور حالیہ عدالتی بحران
تنازعات
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو جس معاملے کی وجہ سے سب سے زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا وہ ان کا 13 جنوری 2024 کا فیصلہ تھا جس میں انہوں نے پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلوں کو برقرار رکھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی نشان ’بلے‘ کے لیے دائر درخواستیں مسترد کردی تھیں۔ پاکستان تحریک انصاف چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم بینچ کے سامنے یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ اس نے انٹراپارٹی انتخابات کرائے ہیں، جس بنا پر انہیں بلے کا انتخابی نشان نہیں دیا گیا۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان تحریک انصاف کو انتخابات میں نقصان پہنچا اور وہ مخصوص نشستیں حاصل کرنے میں تاحال ناکام ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سپورٹرز نے اس معاملے پر انہیں شدید ٹرولنگ کا نشانہ بنایا اور اب تک یہ صورتحال باقی ہے۔
مخصوص نشستوں کا تنازعہ
انتخابی نشان والے معاملے کا ہی ایک اہم حصہ مخصوص نشستوں کا مقدمہ تھا جس میں چیف جسٹس اور 4 دیگر جج صاحبان کے فیصلے کے برخلاف 8 جج صاحبان نے پاکستان تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیا۔ لیکن اس فیصلے پر تاحال عمل درآمد نہیں ہو پایا اور 22 اکتوبر کو چیف جسٹس نے اس معاملے پر اپنا اقلیتی تفصیلی فیصلہ بھی جاری کردیا جس میں انہوں نے اکثریتی فیصلے کو آئین کے منافی قرار دیا۔
کمشنر راولپنڈی کا الزام
فروری 2024 میں انتخابات کے بعد کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے الزام عائد کیا تھا کہ انہیں دھاندلی کے احکامات جاری کیے گئے تھے، دھاندلی میں چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر ملوث ہیں۔ چیف جسٹس نے ان الزامات کی تردید کی اور بعد میں کمشنر راولپنڈی نے بھی اپنے الزامات واپس لے لیے۔