جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی مقررہ معیاد پر ریٹائر ہوکر چلے گئے۔ ان کی جگہ جسٹس یحییٰ آفریدی تیسویں چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف لے چکے ہیں۔ وطن عزیز میں اس سیاسی تقسیم شدہ معاشرے اور شتر بے مہار سوشل میڈیا کے ہوتے ہوئے چیف جسٹس کا عہدہ اب پھولوں کا ہار نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج بن چکا ہے۔
سیاسی تقسیم نے عدلیہ کو بھی اندر سےتقسیم کردیا ہے اور واضح طور پر اعلیٰ عدلیہ میں دھڑے بندی نظر آتی ہے جس کی ایک جھلک سپریم کورٹ کے سینئیر جج جسٹس منصور علی شاہ کے خط کی صورت میں نظر آئی۔ ایسی صورتحال میں کیا جسٹس یحییٰ آفریدی عدلیہ کو متحد کر پائیں گے؟ اس تقسیم شدہ سپریم کورٹ میں اختلافات ختم کروا کر کیا ریاست کے اس اہم ستون کو عوام کو فوری اور سستا انصاف دلانے کے لیے وقف کرسکیں گے؟
جسٹس یحییٰ آفریدی کے پیشرو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بطور چیف جسٹس ابتدا میں پوری کوشش کی کہ وہ عدلیہ کے اندرونی اختلافات کو دور کرتے ہوئے باقی اداروں کی حدود اور اختیارات کا احترام کریں۔ انہوں نے پارلیمان کے حق قانون و آئین سازی کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ عملی طور پر اس کا احترام کیا۔ اسی طرح الیکشن کمیشن کے جو اختیارات اور حدود ہیں اس میں کبھی دخل اندازی نہیں کی۔ سو موٹو کے اختیارات کا بے جا استعمال کرکے کسی ادارے میں دخل اندازی نہیں کی۔ ان کے یہی اقدامات جن کو سراہا جانا چاہیے تھا الٹا ان کے گلے پڑ گئے اور عدلیہ کے اندر سے ہی ان کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی۔ اور پراپیگنڈا کیا گیا کہ یہ پارلیمان کا حق قانون و آئین سازی دراصل اس لیے مان رہے ہیں کیونکہ وہ ایکسٹینشن لینا چاہتے ہیں۔ تاہم یہ پہلے دن سے انہوں نے واضح کیا تھا کہ وہ کوئی توسیع نہیں چاہتے۔
ہماری عدلیہ کو اداروں میں مداخلت کی جو عادت پڑچکی ہے وہ قاضی فائز عیسیٰ جیسے اصول پرست چیف جسٹس کو کسی صورت قبول نہیں کرسکتی تھی۔سوال یہ ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کا بطور چیف جسٹس کنڈکٹ کیسا رہے گا۔ کیا وہ اپنے پیشرو قاضی فائز عیسیٰ کی طرح مداخلت ترک کرنے کی پالیسی جاری رکھیں گے یا پھر مداخلت پسند ججز ان کے دور میں حاوی ہو جائیں گے اور ایک بار پھر قاضی فائز عیسیٰ سے پہلے والا عدالتی دور شروع ہوجائے گا؟
جسٹس یحییٰ آفریدی کے ماضی کے فیصلوں کا اگر جائزہ لیں تو اس سے باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ایک معتدل قسم کے جج ہیں۔ وہ بھی کسی مداخلت کے قائل نہیں۔ سیاسی ریمارکس دینے کی بجائے صرف اور صرف آئین و قانون کو ہی مقدم رکھتے ہوئے فیصلہ سناتے ہیں اور تنازعات میں الجھنے کی بجائے دھڑے بندیوں سے دور رہتے ہیں۔ اندرونی سیاست میں پڑنے کی بجائے اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ لیکن کیا اس تقسیم شدہ عدالتی ماحول میں کیا وہ اپنے انہی اصولوں پر کاربند رہیں گے؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں ان کا خاندانی پس منظر اور ان کی شخصیت کو جاننا بھی ضروری ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کے والد عمر آفریدی ایک بیوروکریٹ رہے ہیں۔ بطور بیوروکریٹ وہ ایک اصول پسند اور دیانت دار شخص سمجھے جاتے تھے۔ عمر آفریدی فوج سے بیوروکریسی میں آئے تھے اور پوری عمر ایمانداری سے اپنے فرائض منصبی نبھائے۔ وہ بطور سیکرٹری ٹو پریڈیڈنٹ جب ریٹائر ہونے لگے تو اس وقت صدر پاکستان فاروق لغاری نے ان کو کہا کہ آفریدی صاحب! میں چاہتا ہوں، آپ میرے ساتھ کام جاری رکھیں، اس لیے میں آپ کو ایکسٹینشن دینا چاہتا ہوں۔ عمر آفریدی نے صدر فاروق لغاری کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ پیشکش ٹھکرا دی اور ریٹائرمنٹ والے دن ہی سرکاری رہائش گاہ خالی کرکے چلے گئے۔
کسی بھی شخص کی پہلی درسگاہ اس کا گھر اور والدین ہوتے ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کی پرورش جس ماحول میں ہوئی اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ نہ کسی کے دباؤ کو خاطر میں لاتے ہیں اور نہ ہی اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ کرتے ہیں۔ ان کے فیصلوں، بطور جج ان کا کنڈکٹ اور کسی اندرونی سیاست میں ملوث نہ ہونے کا ٹریک ریکارڈ اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی اپنے پیشرو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی عدم مداخلت کی پالیسیوں کو جاری رکھیں گے۔ لیکن کیا وہ عدالت کے اندر جاری اندرونی سیاست کا خاتمہ کر پائیں گے؟
اس سوال کے جواب میں ان کی طرف سے جو پہلا اقدام بطور چیف جسٹس اٹھایا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت کمیٹی بنانے کا، اس سے تو واضح ہورہا ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں، اس لیے جسٹس منیب اختر کو دوبارہ اس کمیٹی میں شامل کیا ہے۔ اگر وہ عدلیہ سے اندرونی سیاست کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس سے صرف فائدہ عدلیہ کو ہی نہیں بلکہ عام عوام اور پورے پاکستان کو ہوگا۔ پاکستان منتظر ہے ایک ایسی عدلیہ کا جو کہ عام سائلین کو انصاف دینے کے لیے کوشاں ہو۔اور عوام کی امیدوں کا محور جسٹس یحییٰ آفریدی ہیں اب۔