پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح راولپنڈی بھی تقسیم ہند کی یادوں سے بھرپور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ راولپنڈی وہ شہر ہے جو صدیوں کی کہانیاں اور تہذیبیں اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے۔ یہاں کے کچھ علاقوں کے مکانات، پرانی عمارتیں، تنگ گلیاں اور طرز تعمیر سکھوں اور ہندوؤں کی تاریخ کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
راولپنڈی کی لال کرتی جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ سکھوں اور ہندوؤں کا اکثریتی علاقہ ہوا کرتا تھا۔ یہاں کی ایک خاص گلی بھی ہے جسے کبھی ’گاندھی گلی‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اب گاندھی گلی تو نہیں رہی مگر آج بھی یہ اس دور کے مکانات اور ایک قدیم مندر کو سنبھالے ہوئے ہے۔
یہ بھی پڑھیں وادی سندھ کی تہذیب کے نشانات کہاں کہاں پائے گئے ہیں؟
یہاں کے باسیوں کا کہنا ہے کہ اس گلی اور محلے کی تاریخ بہت پرانی ہے اور ایک دور ایسا ہوا کرتا تھا جب یہاں کے بازاروں اور محلوں میں ہندو، مسلمان اور دیگر برادریاں ایک ساتھ آباد ہوا کرتی تھیں۔
’گاندھی گلی کا نام اس وقت یہاں رہنے والے ہندوؤں نے مہاتما گاندھی کی محبت میں رکھا، لیکن لیکن تقسیمِ ہند کے بعد آہستہ آہستہ حالات بدلتے گئے‘۔
بھارت میں جب مسلمانوں کی عبادت گاہ بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو یہاں پر بھی کچھ شدت پسندوں نے مندر کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی لیکن محلے داروں نے اس مندر کو محفوظ رکھنے کا فیصلہ کیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ اس گلی میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر نظر آنے لگے اور اس گلی کے کونے پر ایک نالہ بھی بہتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ اب اس گلی کو ’گاندھی گلی‘ کے بجائے ’گندی گلی‘ کے نام سے پکارنے لگے ہیں۔
اس گلی میں مقیم کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے بجلی اور گیس کے بلوں پر انگریزی میں گاندھی کے اسپیلنگ ایسے تھے کہ کچھ لوگ اس کو گاندھی کی جگہ گندی پڑھنے لگے، اس گلی کے نام کے بگاڑ میں ایک وجہ یہ بھی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گندگی جب حد سے زیادہ بڑھنے لگی تو آس پاس کے لوگ بھی کچرا یہاں پھینک دیا کرتے تھے، جس کی وجہ سے پھر محلے کے مکینوں نے کنٹونمنٹ بورڈ کو درخواست دی کہ اس گلی کا نام تبدیل کرکے غوثیہ اسٹریٹ رکھا جائے۔
’درخواست قبول کی گئی اور یوں گاندھی گلی غوثیہ اسٹریٹ بن گئی، مگر لوگوں کی یادوں اور تاریخ کے اوراق میں اب بھی یہ ’گاندھی گلی‘ ہی ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں گندھارا تہذیب سے جڑا کندہ کاری کا فن کیا ہے؟
تاریخ کی کچھ کتابوں سے پتا چلتا ہے کہ مہاتما گاندھی دو مرتبہ راولپنڈی آئے تھے۔ پہلی بار 1924 میں جب کوہاٹ میں ہندو مسلم فسادات ہوئے اور وہ وہاں کا دورہ کرنا چاہتے تھے۔ برطانوی حکومت نے حساسیت کی وجہ سے انہیں کوہاٹ جانے سے روکا اور وہ راولپنڈی میں رک گئے تھے۔