سینیئر اداکار فردوس حالیہ دنوں میں اپنی نجی زندگی کے حوالے سے خبروں میں ہیں، گزشتہ دنوں یہ بھی خبریں چلی تھیں کہ اداکار اپنی اہلیہ اور بیٹوں سے جھگڑے کے باعث اپنے خاندان سے دور الگ رہ رہے ہیں، ان کے بیٹے حمزہ فردوس نے میڈیا پر آکر انکشاف کیا تھا کہ ان کی والدہ نے والد سے خلع کے لیے عدالت میں درخواست دائر کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اہلیہ نے خلع نہیں لی، فردوس جمال نے بیٹے کے بیان پر خاموشی توڑ دی
حمزہ فردوس نے کہا تھا کہ ان کی والدہ نے ان کے والد کے ساتھ شادی میں 40 سال گزار دیے لیکن اس کے باوجود وہ یہی شکوہ کرتے رہتے ہیں کہ ان کی شادی غلط جگہ پر ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی عورت شادی کے 35 سال بعد خلع لینا نہیں چاہتی۔ ان کی والدہ صرف اس امید میں اتنے سال پیچیدہ رشتے میں رہیں کہ ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن کچھ بھی بہتر نہیں ہوا۔
حمزہ فردوس نے اپنے والد کی غلطیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ والد کی بہت سی بری عادتیں تھیں جو خاندان کے لیے تکلیف دہ تھیں لیکن انہوں نے کبھی اپنی غلطیوں کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اپنے بچوں اور بیوی کے خلاف چلے گئے۔
’اپنے خاندان کے لیے سب کچھ کیا، میرے پاس اب نہ رہنے کو گھر ہے نہ گاڑی‘
حالیہ پوڈ کاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے فردوس جمال نے کہا کہ کہ انہوں نے زندگی میں اپنی بیوی، اپنے بچوں کے لیے بہت کچھ کیا، ان کو پڑھایا۔ ’بیٹے کو باہر آئرلینڈ پڑھنے کے لیے بھیجا، اس کی فیسیں دیتا رہا، قرضہ لے کر گھر بنایا، جس کا آج تک سود دے رہا ہوں، ان کو گاڑیاں لے کردیں، میرے پاس آج نہ رہنے کو گھر ہے نہ گاڑی ہے۔‘
انہوں نے کہا ’اگر میں نے کوئی جائیداد بنائی ہے یا کوئی اور بینک بیلنس ہو، میں نے کسی کو پیسے دیے ہوں ماں باپ کو یا بہن بھائیوں کو، یا میری کوئی کوئی اور ، یا میری کوئی اور بیوی ہوتی جس کو کچھ دیا ہوتا تو یہ لوگ دعویٰ کرسکتے ہیں، میں نے تو زندگی میں جو کمایا ہے انہیں کو دیا ہے۔‘
’خاندان کی خواتین کو شوبز میں کام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا‘
ان کا کہنا تھا کہ خاندان سے باہر جانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کے خاندان کی ایک خاتون شوبز میں کام کرنے کی کوشش کررہی ہے، لیکن چونکہ ان کا تعلق ایک پشتون گھرانے سے ہے اس لیے وہ کبھی بھی اپنے خاندان کی خواتین کو شوبز میں کام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
’میرا پورا قبیلہ ہے، بہن بھائی ہیں، عزیز رشتے دار ہیں، کوئی بھی مجھ سے پوچھ سکتا ہے کہ آپ کی بہو کیا کررہی ہے، ہم نے تمیں ایکٹنگ کی اجازت اس لیے دی تھی کہ تم مرد ہو، ایکٹنگ کرو، کوئی بات نہیں، اب تمہاری گھر کی عورتوں نے بھی کام شروع کردیا ہے اس کا مطلب ہے تم کنجر ہوگئے ہو، میں کنجر کہلانا پسند نہیں کرتا، میں نے گھر چھوڑ دیا۔‘
یہ بھی پڑھیں: فردوس جمال کا متنازع بیان، ہمایوں سعید نے خاموشی توڑ دی
خواتین جو فلمز، ٹی وی، تھیٹر میں کام کررہی ہیں ان کے بارے میں آپ کا ایسا ہی خیال ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں جو کام جس کا ہے اس کو وہ کرنا چاہیے۔ ’ہماری سوسائٹی میں کیا سبھی سید ہیں، سارے جولائے بھی نہیں ہیں اور نہ سارے کنجر ہیں، سارے میراثی بھی نہیں ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پہلے ہمارے ہاں جو خواتین ٹی وی یا تھیٹر میں آتی تھیں، ان میں زیادہ تر ایک خاص جگہ سے آتی تھیں، پھر ان لوگوں کے پاس پیسہ آیا تو وہ گلبرگ، دیفینس میں شفٹ ہوگئے، وہ باعزت لوگ ہوگئے، اب ہیں وہی لوگ چونکہ ڈیفینس یا گلبرک یا اور علاقوں سے آتے ہیں، بازار سے نہیں آتے لیکن ہیں وہی، بازاری سے مراد لوگوں کا مخصوص رویہ ہے، بہت سارے سوکالڈ شرفا کا رویہ بازاری ہوتا ہے۔‘
فردوس جمال نے کہا کہ انہوں نے اپنی گھر کی خواتین کو بھی شوبز میں کام سے اس لیے روکا۔ ’میں اپنی گھر کی خواتین کو بازار میں نہیں دیکھنا چاہتا، میرے گھر کی عورتیں بازاری کیوں بنیں حالانکہ ان کو گھر میں ہی سب سہولیات حاصل ہیں، بازار میں زیادہ تر عورتیں مجبوری سے جاتی ہیں، کسی کو پروفیشن ہوتا ہے، میرے گھر کی عورت کو کوئی مسئلہ تو نہیں ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: ’ماہرہ خان بوڑھی عورت، ہمایوں سعید ڈاکو ہیں‘ فردوس جمال کی تنقید
آپ کے اس بیان سے بہت ساری خواتین جو شوبر میں کام کررہی ہیں ان کو تکلیف پہنچے گی؟ اس نکتہ اعتراض پر انہوں نے کہا کہ ان کو تکلیف پہنچتی رہے، مجھے کیا، شوبز میں وہ خواتین آنی چاہئیں جن کا یہ پیشہ ہے، اگر کسی اچھے گھرانے سے خاتون شوبز میں آتی ہے اور اسی خاندانی رویے کو اپناتے ہوئے کام کرتی ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ کام کرے، ذات اور رویے میں فرق ہوتا ہے، بعض کنجر ایسے ہوتے ہیں جن کا رویہ کئی شرفا سے اچھا ہوتا ہے، کئی شرفا ایسے ہیں جو کنجروں سے بدتر ہیں۔
انہوں نے اپنی اہلیہ کی جانب سے خلع کے لیے عدالت میں درخواست کے حوالے سے بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے، ان کی اہلیہ کو سوچنا چاہیے کہ ان کی بیٹیوں اور خاندان کے لیے کیا اچھا ہے۔ میں طلاق کے لیے تیار نہیں ہوں اور میں نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
’میں پشاور میں سپراسٹار تھا، جب پشاور چھوڑ کر لاہور آیا تو رہنے کے لے جگہ نہیں تھی، تو میں اچھرے کے پاس بھینسوں کے ایک باڑے میں، جہاں گائے اور گھوڑے وغیرہ بھی تھے، وہاں پر ایک بندے نے کمرہ لیا ہوا تھا جس کا 50 روپے کرایہ تھا، میں نے اس بندے کے ساتھ کمرہ شیئر کیا، 25 روپے کرایہ دیتا تھا، اس کے پاس چارپائی تھی جس پر وہ سوتا تھا، میں زمین پر سوتا تھا، میرے پاس زمین پر بچھانے کے لیے چادر یا چٹائی نہیں تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ پھر کچھ عرصے بعد میری ماں مجھے ڈھونڈتے ہوئے آئی، روتی رہی، مجھے کہا یہ کیا ہے، میں نے انہیں کہا کہ یہ میری ابتدا ہے، ہر بڑے آدمی کی ابتدا یہی ہے، کسی بادشاہ کا بیٹا بڑا آدمی نہیں بنتا، میں آپ کو یہی سے بڑا آدمی بن کے دکھاؤں گا، پھر میری ماں میرے لیے میٹریس لے کر آئی، ماسوائے بادشاہ کے شہزادوں کے سونے کا نوالہ لے کر کوئی بھی پیدا نہی ہوتا، میں نے سب کچھ حاصل کیا ہے، اب کوئی خواہش نہیں کچھ حاصل کرنے کی۔