خیبر پختونخوا کے شورش زدہ قبائلی ضلع کرم میں امن معاہدے کے باوجود ڈپٹی کمشنر اور بعد میں پاڑاچنار امدادی سامان لے جانے والے قافلے پر حملے کے بعد کرم میں آپریشن شروع کر دیا گیا ہے جو منگل کو تیسرے روز میں داخل ہوگیا۔
ضلعی انتظامیہ نے پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی مدد سے مقامی آبادی سے اسلحہ جمع کرنا بھی شروع کردیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کرم قافلے پر حملے کا مقدمہ درج، 19 افراد نامزد
بگن کے علاقے میں آپریشن جاری ہے جس میں ہیلی سے بھی دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اب تک صوبائی حکومت نے اس آپریشن کے حوالے سے کوئی مؤقف نہیں دیا ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق بگن میں اس وقت فوجی آپریشن جاری ہے جس میں بھاری توپ خانے کے ساتھ ساتھ گن شپ ہیلی کاپٹرز بھی حصہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بگن اور مضافات میں مختلف اہداف کو گن شپ ہیلی کاپٹروں سے نشانہ بنایا جارہا ہےا ور بگن جانے والے تمام راستے بند ہیں جبکہ جگہ جگہ سیکیورٹی فورسز کے دستے تعینات ہیں۔
مزید پڑھیے: خیبر پختونخوا حکومت کا ضلع کرم میں شر پسند عناصر کے خلاف بلاتفریق سخت کارروائی کا فیصلہ
ذرائع نے بتایا کہ پورا علاقہ فورسز کے محاصرے میں ہے اور کسی کو باہر سے ان علاقوں میں آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔
بگن کے مشر ملک اقبال بادشاہ نے میڈیا کو جاری بیان میں بتایا کہ بگن پر 22 نومبر کو لشکر کشی کی گئی، لوٹا گیا اور پھر آگ لگائی گئی جس کے بعد علاقے میں بدامنی کے واقعات شروع ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ اب بگن کا فوجی آپریشن بھی ہورہا ہے اور لوگوں سے اسلحہ بھی جمع کیا گیا ہے جبکہ بگن سے بھاری اسلحہ سنہ 2007 اور سنہ 2013 میں بھی جمع کروایا گیا تھا۔
بگن میں اسلحہ جمع کرانے کے عمل کا آغاز
پولیس کے مطابق کرم امن معاہدے پر عملدرآمد کے نتیجے میں لوئر کرم کے علاقے بگن میں سیکیورٹی فورسز نے مقامی لوگوں سے اسلحہ جمع کرنا شروع کر دیا ہے۔ کرم امن معاہدے کے نکات میں سے دونوں فریقوں سے اسلحہ بھی جمع کرنا تھا جس پر عملدرآمد شروع کرتے ہوئے بگن اور ملحقہ علاقوں سے غیر لائسنس یافتہ اسلحہ جمع کیا گیا۔
بگن کے رہائشی افضل خان نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بگن متاثرین کا مندوری کے مقام پر دھرنا جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سے بگن متاثرین کو معاوضہ ملنا چاہیے اور بگن پر لشکر کشی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے لیکن بگن کو انصاف دینے کے بجائے وہاں آپریشن کیا جایا رہا ہے اور اب اسلحہ بھی جمع کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: کرم میں قیام امن کے لیے دہشتگردوں کے خلاف ممکنہ آپریشن کا منصوبہ، ٹی ڈی پیز کیمپ قائم
بگن میں مقامی رہنما ملک اقبال بادشاہ کا کہنا ہے کہ پہلے سنہ 2007 میں بھی اسی طرح ہمارے علاقے کا آپریشن کیا گیا تھا اور ہم سے سارا اسلحہ جمع کیا گیا تھا پھر 22 نومبر کی رات کو علاقے پر لشکر کشی کی گئی اور اسلحہ حکومت کے پاس ہونے کے باعث حملہ آوروں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکا۔
انہوں نے کہا کہ اب ایک ایک بندوق ہم نے اپنی حفاظت کے لیے لی تھی لیکن اب تو وہ بھی ہم سے واپس لے لی گئی ہے جبکہ اپر کرم میں بھاری اسلحے کے خلاف اب تک کوئی آپریشن نہیں ہوا ہے۔