جنوبی کوریا کے صدارتی انتخابات میں اپوزیشن لیڈر ’لی جے مینگ‘ نے واضح برتری حاصل کرتے ہوئے کامیابی سمیٹ لی ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق لی جے مینگ نے اپنی تقریر میں عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ملکی اتحاد اور معاشی اصلاحات کو اپنی ترجیح قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کا ممکنہ فیصلہ جنوبی کوریا کو جنگ میں دھکیل سکتا ہے، امریکی جنرل
انتخابی نتائج کے مطابق، لی جے مینگ نے حریف امیدوار کو کافی بڑے فرق سے شکست دی ہے، جسے سیاسی مبصرین ’لینڈ سلائیڈ وکٹری‘ قرار دے رہے ہیں۔
ان کی کامیابی کو جنوبی کوریا کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ سمجھا جا رہا ہے، خاص طور پر معیشت اور شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے۔
لی جے مینگ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ملک میں ’منصفانہ معیشت‘ کو فروغ دیں گے اور کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کریں گے۔
جنوبی کوریا کے صدارتی انتخابات 2025 کا پس منظر:
جنوبی کوریا میں یہ صدارتی انتخابات قبل از وقت (snap election) منعقد ہوئے، جس کی بنیادی وجہ سابق صدر ’یون سوک یول‘ کی حکومت کے خلاف عوامی غم و غصہ تھا۔
گزشتہ 2 سالوں میں ملک کو درپیش مسائل نے سیاسی بحران کو جنم دیا:
-
معاشی بدحالی:
– بے روزگاری اور مہنگائی نے متوسط طبقے کو بری طرح متاثر کیا۔
– نوجوانوں میں روزگار کے مواقع کم ہونے سے مایوسی پھیلی۔
-
کرپشن کے اسکینڈلز:
– سابق صدر یون پر خود اور ان کے اتحادیوں پر **رشوت ستانی** کے سنگین الزامات لگے۔
– عوامی احتجاجات کے بعد ان کی حمایت میں تاریخی کمی آئی۔
-
سیاسی تقسیم:
– حکمران جماعت ’پیپلز پاور پارٹی‘ اور اپوزیشن لیڈر ’لی جے مینگ‘ کی ’ڈیموکریٹک پارٹی‘ کے درمیان کشمکش شدت اختیار کر گئی۔
-
نارتھ کوریا کے ساتھ تعلقات:
– سابق حکومت کی سخت گیر پالیسیوں کے باعث دونوں کوریاؤں کے مذاکرات جامد ہو گئے تھے، جس سے عوام میں عدم اطمینان بڑھا۔
لی جے مینگ کی کامیابی کی وجوہات:
– انہوں نے ’معاشی انصاف‘ کے نعرے کے ساتھ غریب اور متوسط طبقے کی حمایت حاصل کی۔
– نوجوانوں کو روزگار کے وعدوں اور کرپشن کے خلاف جنگ کا یقین دلایا۔
– شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کا پرامید پلان پیش کیا۔
نتیجہ:
عوامی مینڈیٹ نے لی جے مینگ کو 60 فیصد ووٹ دے کر واضح برتری دی، جو 1997 کے بعد سب سے بڑی جیت ہے۔ اب ان کی حکومت کو معیشت اور خارجہ پالیسی کے چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔