مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس: یہاں تو پی ٹی آئی پر سنی اتحاد کونسل کا قبضہ ہے، جسٹس امین الدین خان

منگل 17 جون 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق حالیہ فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی آئینی بینچ نے کی، عدالتی کارروائی کو براہِ راست نشر کیا گیا، سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل جاری کیے۔

سماعت کے دوران ججز اور وکیل فیصل صدیقی کے درمیان متعدد بار سوال و جواب اور دلائل کا تبادلہ ہوا، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کو یہ خیال کہاں سے آیا کہ عدالتی اختیارات کم ہو گئے ہیں، جس پر وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ انہیں کوئی خیال نہیں آیا۔

یہ بھی پڑھیں:سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل کے ریمارکس

فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ آئین میں کی گئی ترمیم محض وضاحت کے لیے نہیں تھی بلکہ اس کا کوئی مقصد ضرور تھا، ان کا کہنا تھا کہ آئینی آرٹیکل 187 کو 175 کے ساتھ ملا کر پڑھا جانا چاہیے، جسٹس ہاشم کاکڑ نے رائے دی کہ عدالتی اختیارات کے معاملے پر خاصی تقسیم نظر آتی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ کیا 26ویں آئینی ترمیم وضاحت کے لیے کی گئی تھی، جس پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ نہ ترمیم، نہ آرٹیکل 184(3) ہمارے کیس سے متعلق ہیں، تاہم جسٹس امین الدین خان نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمام نکات کیس کے مرکز میں ہیں۔

مزید پڑھیں: مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی کیس : ریلیف سنی اتحاد کی جگہ پی ٹی آئی کو دیا گیا، جسٹس امین الدین کے ریمارکس

جج صاحبان نے بارہا فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کہاں سے آتے ہیں، اور کیا عدالت کسی تیسرے فریق کو بھی ریلیف دے سکتی ہے؟ اس پر وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت عظمیٰ کے پاس مکمل اختیار ہے کہ وہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ریلیف دے، چاہے فریق عدالت میں ہو یا نہ ہو۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے، ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ عدالت کے سامنے کون فریق ہے اور کس کے لیے ریلیف کا دائرہ موجود ہے، 80 ارکان نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی پر کبھی انکار نہیں کیا، فیصل صدیقی کا مؤقف تھا کہ کل سپریم کورٹ پر کوئی قبضہ کرلے تو کیا عدالت 40 سل بعد اسکی ہو جائے گی۔

مزید پڑھیں: مخصوص نشستوں پر حلف کیسے لیں؟ اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی کی پشاور ہائیکورٹ سے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست

جس پرجسٹس امین الدین خان بولے؛ یہ قبضہ پھر آپ نے 80 لوگوں پر کیا، آپ کہتے ہو الیکشن کمیشن غلط ہے ہائیکورٹ غلط تو اپنا بھی بتائیں، جس پر فیصل سدیقی بولے؛ ہم نے غلطی مانی ہے، اس موقع پر جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ آپ نے غلطی مانی ہے تو پھر سامنا کریں، آپ کہتے ہیں جو ہے ہی نہیں وہ نیا ہم کردیں۔

دوران سماعت جذباتی اور آئینی نکات پر بھرپور مکالمہ دیکھنے میں آیا، جب وکیل فیصل صدیقی نے تاریخی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو فاطمہ جناح مانگ رہی تھیں، وہی ہم آج مانگ رہے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل کو یاد دہانی کرائی کہ انہیں آج ہی اپنے دلائل مکمل کرنا ہوں گے۔

مزید پڑھیں: مخصوص نشستوں کے کیس کی لائیو اسٹریمنگ کا حکم، آئینی بینچ کی تشکیل پر اعتراضات مسترد

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ یہ دیکھیں کہ تنازعہ کہاں سے بنا، فارم 33 میں تو صاف درج ہے کہ امیدوار کس جماعت سے تعلق رکھتا ہے، ہمارے متعدد سوالات کے باوجود کوئی ایک امیدوار بھی عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ ہم یہاں صرف انصاف کے لیے بیٹھے ہیں۔

جسٹس مندوخیل نے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ امیدوار تو بہت خوش ہیں، انہیں کوئی شکایت نہیں کہ وہ پی ٹی آئی میں نہیں رہے، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ وہ تو اپنے اس گھر واپس چلے گئے جہاں سے انہیں نکالا گیا تھا۔

مزید پڑھیں:مخصوص نشستوں کا معاملہ: جسٹس عائشہ ملک کا چیف جسٹس کے نام شکایتی خط

جسٹس امین الدین خان نے کیس کے تناظر میں نشاندہی کی کہ کسی بھی امیدوار نے یہ مؤقف اختیار نہیں کیا کہ انہوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی، یہاں تو پی ٹی آئی پر قبضہ سنی اتحاد کونسل کا ہے، آپ چاہتے ہیں کہ ہم تمام واقعات اور زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے محض آپ کو ریلیف دے دیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ایک دلچسپ تمثیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جب 2 فریقین زمین پر جھگڑتے تھے تو آخر میں وہ زمین سرکار کی نکلتی تھی، اگر سرکار عدالت کے سامنے موجود نہ بھی ہو، تب بھی زمین اسی کو دی جاتی تھی کیونکہ وہی اس کی اصل مالک ہوتی تھی۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی مخصوص نشستیں؛ درخواستیں مسترد کرنے والے ججز بینچ میں نہیں بیٹھیں گے لیکن فیصلہ شمار ہوگا؛ آئینی ماہرین

جسٹس حسن اظہر رضوی نے دریافت کیا کہ جو سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں پی ٹی آئی کو ہدایات کی گئیں وہ پوری ہوئیں، جس پر فیصل صدیقی بولے؛ تمام ممبران نے اپنے کوائف اور پارٹی وابستگی جمع کرائی تھی، سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا، الیکشن کمیشن دھڑلے سے کہتا ہے کہ فیصلے پر عملدرآمد بھی نہیں کریں گے اور نظر ثانی بھی کریں گے۔

عدالتی استفسار پر فیصل صدیقی نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے 39 ممبران کو پی ٹی آئی کا نوٹیفائی کیا لیکن مخصوص نشستیں نہیں دیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ نظر ثانی تو بقیہ 40 نشستوں پر ہے، تاہم جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ نظر ثانی تمام 79 نشستوں پر ہے۔

مزید پڑھیں: محض ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں ہوسکتا، سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ ان کے بار بار پوچھنے پر الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ انہوں نے 40 سیٹ پر نظر ثانی کی درخواست کی ہے، اس موقع پر الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل لا کو روسٹر پر طلب کرلیا، جنہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد 39 ممبران کو پی ٹی آئی کا نوٹیفائی کر دیا تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے 39 ممبران کے تناسب سے مخصوص نشستیں دی ہیں، جس پر ڈی جی لا الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ کمیشن 39 کی حد تک تو مخصوص نشستیں نہیں دے سکتا، یہ تو باقاعدہ فارمولا ہوتا ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی بولے؛ اگر فارمولا ہوتا ہے تو باقی جماعتوں کو مخصوص نشستیں کیوں دیں، فیصلہ ہو لینے دیتے اور پھر سب کو ایک ساتھ مخصوص نشستیں دیتے، اس موقع پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ باقی جماعتوں کو مخصوص نشستیں نہیں دی گئیں، لیکن اس موقع پر ڈی جی الیکشن کمیشن نے بتایا کہ باقی تمام سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں دے دی ہیں۔

مزید پڑھیں: مخصوص نشستوں کا کیس: کیا 2 ججوں کو واپس لانے کے لیے کوئی دعوت نامہ بھیجیں؟ جسٹس محمد علی مظہر

اس موقع پر وکیل فیصل صدیقی بولے؛ یہ تو پی ٹی آئی کے ساتھ ناانصافی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلوں کا کوئی تو تقدس ہونا چاہیے، کیس کیا ہے یہ مسئلہ نہیں ہار جائیں گے، بات سپریم کورٹ کے وقار اور مستقبل کی ہے، ان سے فیصلے پر عملدرآمد کا تو پوچھیں۔

فیصل صدیقی کا مؤقف تھا کہ یہ تو ہمارے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے، عام شہریوں کے کیس میں سختی سے پوچھا جاتا ہے فیصلے پر عمل کیوں نہیں ہوا، یہاں سامنے حکومت ہے تو کیا پوچھا ہی نہیں جائے گا، انہوں نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے مستقبل سے متعلق پریشان ہیں، سپریم کورٹ کے حکم کی کچھ تو عزت اور تکریم ہونی چاہیے۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ غلطیاں کئی بار یہاں ہماری جانب سے ہی ہوتی ہیں، ماضی میں تین دو یا چار تین کی کنفیوژن نہ پھیلائی جاتی تو الیکشن بھی وقت پر ہوتے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp