دیوار گریہ پر درج نوشتہ دیوار

جمعرات 19 جون 2025
author image

رعایت اللہ فاروقی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، ایران پر اسرائیل کے سرپرائز اٹیک کو 5 دن گزرچکے۔ اور بعد کے ان 5 دنوں میں مزید بھی بہت کچھ ہوچکا لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ چیزیں اب بہت حد تک واضح ہوچکیں۔

واضح شدہ میں سب سے اہم یہ ہے کہ حملے کی پلاننگ یہ سوچ کر کی گئی تھی کہ ایران کی ٹاپ کمانڈ کے صفائے، موساد ایجنٹوں کے ایران میں جگہ جگہ دہشتگرد حملوں اور ایرانی ایئرڈیفنس کے ہیک ہونے سے پورے ملک میں بے یقینی اور افراتفری کی فضا بن جائے گی جس سے رجیم چینج کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔

اسرائیلی کیلکولیشن میں یقیناً یہ تصور شامل رہا تھا کہ بالکل ہی اچانک اس قدر بڑا جھٹکا لگنے کے بعد باقی ماندہ پولیٹکل و ملٹری قیادت کسی جائے پناہ کی طرف دوڑے گی اور ہر کسی کو اپنی جان کی فکر لاحق ہوگی۔ مگر یہی وہ اندازہ تھا جو مکمل طور پر غلط ثابت ہوا۔ ایرانی قیادت کے نہ ہاتھ پھولے اور نہ ہی پیر۔ ملک کا ایئرڈیفنس ہیک ہوچکا تھا اور ایرانی فضاؤں میں اسرائیلی لڑاکا طیارے آزادنہ پرواز ہی نہیں کر رہے تھے بلکہ اہداف کو بھی نشانہ بنا رہے تھے۔ مگر سیاسی ہی نہیں عسکری قیادت بھی پوری طرح یکسو نظر تھی۔ انہوں نے 8 گھنٹے میں ایئرڈیفنس کا کنٹرول واپس حاصل کیا ، نئی کمانڈ کا اعلان کیا اور اس سے فارغ ہوتے ہی اسرائیل پر میزائلوں کی بارش بھی کردی۔

یہ بھی پڑھیں: نو سرنڈر

یوں اسرائیل اپنے حملے کے 20 ویں گھنٹے میں آدھی گیم ہار چکا تھا۔ ایران نے اپنی یکسوئی ثابت کردی تھی، اب اسے بس اسے مستحکم کرنا تھا۔استحکام کے لیے ضروری تھا کہ موساد کے ان ایجنٹوں کو جلد از جلد قابو کیا جائے جو ایران بھر میں دہشتگردی کے مشن پر تھے۔ ایرانی پولیس نے اس معاملے میں بھی اگلے 48 گھنٹوں کے دوران اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ایرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق موساد کے کئی ایجنٹ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ ان سے برآمد شدہ سازوسامان میں چھوٹے ڈرون اور بڑی مقدار میں بارود شامل ہے۔ جس سے واضح ہے کہ یہ کس نوعیت کے مشن پر تھے۔

کہنے میں عام آدمی کو یہ سب بہت آسان لگ سکتا ہے مگر یہ کس قدر غیر معمولی کارکردگی رہی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر کے ریٹائرڈ سینیئر ملٹری و انٹیلی جنس افسران ہی نہیں عسکری تجزیہ کار بھی اس پر انگشت بدنداں ہیں۔ اکثریت کو اس کی بات کی توقع ہی نہ تھی کہ ایران اس مہلک وار سے سنبھل پائے گا۔ اور جس اقلیت کو لگتا تھا کہ صورتحال شاید قابو میں آجائے گی وہ بھی اس کام میں کم از کم ہفتہ بھر لگنے کی توقع کر رہے تھے۔

سنبھلنے میں حیران کن تیزی دکھانے کے بعد ایران نے ایک اور معاملے میں بھی حیران کیا ہے۔ مگر یہ والی حیرت صرف ان کے حصے میں آئی ہے جو جنگ اور اس کی حکمت عملیوں کا شعور رکھتے ہیں۔ ٹی وی یا کمپیوٹر اسکرینوں پر غیرعسکری ذہن تو بس یہی دیکھ پائے ہیں کہ ایرانی میزائل اسرائیلی شہروں میں پر گر رہے ہیں۔ اور پھر ہر رات کے بعد آنے والے دن میں سب نے تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے بھی دیکھ رکھے ہیں۔ لیکن یہ میزائل بس داغ ہی نہیں دیے گئے۔ بلکہ ان کا استعمال شطرنج کے مہروں کی طرح کیا گیا ہے۔ ایرانی میزائلوں کا ہر بیراج پوری پلاننگ کے ساتھ پہلے سے طے شدہ اہداف کی جانب بڑھا ہے اور اپنے اہداف حاصل کر کرکے دکھائے ہیں۔

مثلاً پہلی رات ایران نے ڈرونز اور لگ بھگ 200 پرانی ٹیکنالوجی والے بیلسٹک میزائل اسرائیل کے مختلف مقامات کی جانب بھیجے۔ ان ڈرونز اور میزائلوں کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ایئرڈیفنس کی ایک دم تازہ موجودگی کنفرم ہوجائے کہ یہ کہاں کہاں نصب ہے۔ وہ الگ بات کہ بہت سے میزائل شہروں پر گرے بھی مگر مقصد اصلی ان کا بس اسرائیلی ریڈارز اور ایئرڈیفنس کو  بے نقاب کرنا تھا۔ اگلی 2 راتیں ایران نے ان ریڈارز اور ایئرڈیفنس کی صفائی میں لگائیں اور چوتھی رات میزائلوں کی کوالٹی بدل کر مہلک میزائلوں سے اسٹریٹیجک اہداف کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ مثلاً اس نے حیفہ کی اس ریفائنری کو سب سے پہلے اڑایا جو جیٹ فیول تیار کرتی ہے۔ اسی طرح اسرائیل کے مختلف مقامات پر واقع جیٹ فیول کے ہی ڈپو بھی اڑا دیے۔ جس سے ایران کے فضائی حملے کمزور پڑ گئے۔

ساتھ ہی گیس، بجلی کی سپلائی کے مراکز کو بھی نشانے پر رکھ لیا۔ چوتھی رات کی صبح ایرانی میزائلوں نے تل ابیب میں واقع موساد ہیڈ کوارٹر کو ہی نہیں بلکہ انتہائی خفیہ انٹیلی جنس ادارے یونٹ 8200 اور اس کے مواصلاتی نظام کو بھی اڑا دیا۔ جو نہیں جانتے ان کے لئے عرض کردیں کہ یونٹ 8200 اسرائیل کی سگنلز انٹیلی جنس ایجنسی ہے۔ یہ امریکا کی این ایس اے کی طرح مواصلاتی جاسوسی کرتی ہے۔ یعنی فون، وائرلیس، سوشل میڈیا، اور وٹس ایپ جیسے دیگر ذرائع مواصلات کو ہدف بنا کر وہاں سے ڈیٹا حاصل کرتی ہے۔

مزید پڑھیے: کیا پنجابی قوم پرست بن سکتے ہیں؟

اسی دوران اسرائیل ایران کے سائبر اٹیک کی بھی زد میں آگیا۔ سائبر اٹیک کے ذریعے مواصلاتی نظام، ٹیلی وژن اسٹیشنز ہی نہیں بلکہ آئرن ڈوم کی بچی کھچی بیٹریز کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ چنانچہ چوتھی رات یہ مناظر سب نے دیکھے کہ آئرن ڈوم نے خود کار طور پر راکٹ فائر کرکے قریبی اسرائیلی عمارتوں کو ہی نشانہ بنایا۔

یوں جنگ کے 5ویں دن ہی نیتن یاہو نے ہاتھ کھڑے کردیے کہ اب وہ امریکی مدد کے بغیر کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ وہ ڈونلڈ ٹرمپ جی 7 سمٹ کے لیے کینیڈا میں تھا جس نے جنگ کے آغاز پر بڑی معصومیت کے ساتھ کہا تھا کہ ’ہمارا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ اسرائیل کی جنگ ہے‘۔

لیکن  5ویں روز اسرائیل کی حالت اتنی بگڑ چکی تھی کہ اسے جی 7 سمٹ چھوڑ کر امریکا کی طرف دوڑ لگانی پڑی۔ حواس باختہ ٹرمپ نے شاید دوران پرواز ہی وہ ٹوئٹ کی جس میں تہران خالی کرنے کی وارننگ جاری کی اور جب واشنگٹن آمد ہوئی تو ان کی جانب سے بس ایک ہی رٹ سنائی دی، ’میری ایرانیوں سے ہر حال میں میٹنگ کروائی جائے‘۔

اسی دن اچانک امریکی ایئر ری فیولرز اور دیگر طیارے مشرق وسطی کی طرف بڑھتے دکھائی دیے۔ گویا 5 روز قبل جس ٹرمپ کا یہ کہنا تھا کہ اس جنگ سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، یہ ہماری نہیں اسرائیل کی جنگ ہے۔ وہ فقط 4 روز بعد زبان حال سے کہہ رہا تھا ’یہ جنگ ہماری ہی ہے۔ تہران خالی کرو ورنہ میں آگ لگا دوں گا‘۔

یعنی صاحب بہادر یہی بھول گئے کہ انہیں تو نوبیل پیس پرائز حاصل کرنا تھا۔ ایک صحافی نے انہیں اطلاع دی کہ معروف امریکی صحافی اور ان کے دوست ٹکر کارلسن نے خبردار کیا ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ اس جنگ میں کودے تو یہ اقدام امریکا کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ اس پر وہ کچھ بڑبڑا کر گزر گئے مگر چند ہی منٹ بعد ٹکر کارلسن کے خلاف تمسخر بھری ٹوئٹ آگئی۔ گھنٹے بعد ایک اور صحافی نے انہیں یاد دلایا ’ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس تلسی گابرڈ نے تو سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے انٹیلی جنس رپورٹ دی تھی کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا‘

ٹرمپ ایک بار پھر بڑبڑائے مگر اس بار بڑبڑاہٹ واضح تھی

’مجھے کوئی پروا نہیں کہ اس نے کیا کہا تھا، میں کہہ رہا ہوں کہ ایران ایٹم بم بنا رہا تو بس بنا رہا ہے‘۔

بات یہیں نہ رکی بلکہ اگلی ٹوئٹ کسی بھی ریاست کے سربراہ کی نہیں بلکہ گلی کے غنڈے کی ثابت ہوئی۔ ٹرمپ نے کسی لاگ لپیٹ کے بغیر ہی ایرانی رہبر کے قتل کی دھمکی دے دی۔ کیا کسی نے تصور بھی کیا تھا کہ امریکی منصب صدارت پر اتنے برے دن بھی آئیں گے؟

مزید پڑھیں: افغان تعصب

جانتے ہیں اس پوری صورتحال نے سب سے زیادہ کن کو پریشان کر رکھا ہے؟ ٹرمپ کی اس ٹیم کو ہی سب سے زیادہ پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے جو ’ماگا‘ کہلاتی ہے اور جس میں انتخابی مہم کے دوران ایلان مسک، ٹکر کارلسن اور تلسی گابرڈ جیسے لوگ بھی اس امید پر شامل ہوئے تھے کہ ٹرمپ امریکا کو جنگوں سے نکال کر امن کی اس راہ پر ڈالے گا جسے خود ڈونلڈ ٹرمپ نے ہی ’آؤ امریکا کو پھر سے عظیم بنائیں‘ کا ٹائٹل دے رکھا تھا۔ یہی صدارتی مہم کے دوران ٹرمپ کا ماٹو بھی تھا۔ اسی فقرے کے سائے تلے ان کی پوری انتخابی مہم چلی تھی۔ اسی لیے پورا ٹرمپ کیمپ مضطرب ہے کہ یہ اچانک چل کیا پڑا ہے؟ کوئی شخص اپنے پورے انتخابی ایجنڈے سے ہی یکایک یوٹرن کیسے لے سکتا ہے؟ اضطراب کے اسی عالم میں ٹوئٹر پر کچھ معتبر امریکی اب یہ سرگوشیاں بھی کرنے لگے ہیں

تو کیا ایلان مسک سچ کہہ رہا تھا کہ جیفری ایپسٹین فائلز میں ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی نام ہے؟

ان سرگوشیوں کی اہمیت یہ ہے کہ جیفری ایپسٹین کے پورے نیٹ ورک کے پیچھے موساد کا ہاتھ درجن بھر ڈاکومنٹریز میں واضح دکھایا گیا ہے۔ ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ اس کیس کی فائلز میں کس کا نام ہے اور کس کا نہیں۔ مگر یہ اب پوری دنیا پر واضح ہوگیا ہے کہ ایران کی صرف 4 دن کی مار نے ہی اسرائیل کا بھرکس ہی نہیں نکال دیا بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بھی اوسان بھی اس حد تک خطا کردیے ہیں کہ وہ یہی بھول گئے ہیں کہ منصب صدارت کے کچھ تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کی دن بھر کی ان دھمکیوں کا ایرانی قیادت پر کوئی اثر پڑا؟ قطعا نہیں۔ کیونکہ اس دن کے بعد آنے والی رات میں ایران نے جنوبی لبنان اور گولان ہائٹس میں اسرائیلی ملٹری اہداف کو نشانہ بنا کر تباہ کردیا ہے۔

 جانتے ہیں اس کی اہمیت کیا ہے؟ یہ لبنانی تنظیم حزب اللہ کا ایریا ہے۔ یوں گویا اس کے سامنے موجود اسرائیلی رکاوٹوں کو دور کیا گیا ہے۔ اندازہ گانا دشوار نہیں کہ اس سے اسرائیل پر کتنا بڑا دباؤ آگیا ہوگا۔ انہیں اب اسرائیلی میزائلوں کا ہی نہیں حزب اللہ کی کسی ممکنہ پیش قدمی کا بھی خوف رہے گا۔

یہ بھی پڑھیے: روس نے انڈیا کا ساتھ کیوں نہ دیا؟

اس پوری صورتحال نے واضح کردیا ہے کہ جنگ پر ایران اپنی پوری بالادستی صرف ایک ہفتے کے اندر اندر ثابت کرچکا ہے۔ اگر امریکا بیچ میں نہیں کودتا تو اسرائیل کی عبرتناک شکست نوشتہ دیوار ہے۔ اور نوشتہ دیوار بھی وہ جو بیت المقدس کی دیوار گریہ پر درج ہے!

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp