ججز کا تبادلہ غیر آئینی نہیں، سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا

جمعرات 19 جون 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے ججز ٹرانسفر کیس کا محفوظ کیا فیصلہ سنا دیا۔ فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ ججز تبادلہ غیر آئینی نہیں ہے۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ نے ججز ٹرانسفر کیس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا۔ فیصلے کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلے کے خلاف دائر درخواستیں خارج کر دی گئی ہیں۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی منتقلی سے متعلق کیس کا محفوظ شدہ فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے 3-2 کی اکثریت سے آئینی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے ججز کی منتقلی کو آئین اور قانون کے مطابق قرار دیا ہے۔

فیصلہ جسٹس محمد علی مظہر نے سنایا، جبکہ جسٹس شاہد بلال اور جسٹس صلاح الدین پنوار نے اکثریتی فیصلے سے اتفاق کیا۔ فیصلے کے مطابق، ججز کے تبادلے کے صدارتی نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار نہیں دیا جا رہا اور ججز کی منتقلی کو غیر آئینی نہیں سمجھا گیا۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ آرٹیکل 200 کے تحت صدر مملکت کو ججز کی منتقلی کا اختیار حاصل ہے، اور منتقلی کو ججز کی تقرری تصور نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی منتقلی آئین کے مطابق ہوئی ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ججز کی سینیارٹی کا معاملہ صدر پاکستان کو واپس بھیجا جا رہا ہے، جو اس معاملے کو جتنی جلد ممکن ہو، طے کریں۔ جب تک صدر مملکت سینارٹی کا فیصلہ نہیں کرتے، سردار سرفراز ڈوگر بطور قائم مقام چیف جسٹس اپنی ذمہ داریاں جاری رکھیں گے۔

عدالت نے واضح کیا کہ صرف سرکاری دوروں کے لیے وزارتِ خارجہ کو پروٹوکول کی درخواست دی جائے گی، جبکہ ججز کو کسی بھی قسم کی چھٹی کے لیے پیشگی منظوری لینا اور معقول وجہ دینا ضروری ہوگا۔ بیرونِ ملک جانے سے پہلے چیف جسٹس سے این او سی لینا لازم ہوگا۔

فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ صدر کا ججز کے تبادلے کا آرٹیکل 200کے تحت اختیار کسی قانون سے مشروط نہیں۔ قانون کا کوئی سیکشن آرٹیکل 200کے اختیار کو سپر سیڈ نہیں کرسکتا۔
عدالتی فیصلے کے ماطبق آرٹیکل 200میں ججز کے تبادلے کا پورا میکنیزم دیا گیا ہے، جج اگر رضامندی نہ دے تو تبادلے کا عمل وہی ختم ہوجاتا ہے۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ جج کی رضا مندی کے بعد چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت کا آئین میں کہا گیا ہے، ججز کے ٹرانسفر سے عدلیہ کی آزادی کمپروماٸمئز نہیں ہوتی، تبادلے کو تسلیم کرنا یا مسترد کرنا عدلیہ کے ہاتھ میں ہے۔

اختلافی نوٹ:

جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے نوٹ میں ججز کے تبادلے کو کالعدم قرار دینے کی رائے دی۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ صدر مملکت نے تبادلے کے معاملے میں آئینی خلاف ورزی کی، اور تبادلہ بدنیتی پر مبنی تھا۔

اختلافی جج صاحبان نے لکھا کہ آئین پاکستان کے تحت تبادلہ ہو کر آنے والے ججز کو مستقل طور پر ہائیکورٹ کا جج بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اور ایسے ججز کے لیے مدت کا تعین ضروری ہے۔ مزید کہا گیا کہ ججز کے تبادلے میں جلد بازی کی گئی اور اس کے لیے مناسب وجوہات بھی پیش نہیں کی گئیں۔

اختلافی نوٹ میں قرار دیا گیا کہ تبادلہ ہوکر آئے ججز کا نیا حلف موجودہ کیس میں ضروری نہیں، ججز کے نئے حلف کے معاملے کو کسی اور کیس میں دیکھا جائے۔
اختلافی نوٹ میں تحریری کیا گیا کہ عدلیہ کے معاملات میں خفیہ ایجنسیوں بالخصوص آئی ایس آئی مداخلت کا ذکر کیا گیا، کہا گیا کہ آئی ایس آئی نے ججز کے معاملات میں مداخلت کی اور اسی وجہ سے تبادلے ہوئے۔ آئین کے تحت آئی ایس آئی کے پاس ججز کے تقرر یا تبادلے کا کوئی اختیار نہیں۔
اختلافی نوٹ کے مطابق آئی ایس آئی ریاست کا ایک ذیلی ادارہ ہے جس کا عدلیہ سے کوئی لینا دینا نہیں۔
جسٹس نعیم نے اپنے اختلافی نوٹ میں عدلیہ میں مداخلت سے متعلق درج ذیل اشعاربھی درج کیے:

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
نیز
دامن پر کوئی چھینٹ نہ خنجر پر کوئی داغ
تم قتل کرو کے کرامات کرو ہو

قبل ازیں آج ہونے والی سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کے وکیل ادریس اشرف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے سیاسی بنیادوں پر تبادلے کیے گئے، جو کہ غیر قانونی ہیں۔

انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کے تقاضوں کے برعکس ان تبادلوں کا کوئی آئینی جواز نہیں۔

عدالت میں اٹارنی جنرل اور سینیئر وکیل منیر اے ملک نے بھی جوابی دلائل پیش کیے۔ تمام وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد بینچ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس اہم مقدمے کا مختصر فیصلہ آج ہی سنایا جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp