ڈاکٹروں کی سیاست!

ہفتہ 21 جون 2025
author image

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ڈاکٹری کا شعبہ ویسا ہی ہے جیسے وطن عزیز کے باقی سب شعبے۔۔۔ انتظامی اور تکنیکی امور میں تو گڑبڑ ہے ہی مگر ڈاکٹروں کے بیچ سفارش، فیورٹزم، دھینگا مشتی، جونیئرز ابیوز، سینیئرز کی آمریت اور بہت کچھ شامل ہے۔

ہم مشاہدات کی نہیں ان تجربات کی بات کر رہے ہیں جس کے بعد ہم نے یہ پلان بنایا کہ بس بہت ہو گئی۔

ٹیچنگ اسپتال کے ہر وارڈ میں ایک بادشاہ ہوتا ہے جسے پروفیسر کہتے ہیں، اس کے دائیں بائیں 2 وزیر ( ایسوسی  ایٹ اور اسسٹنٹ پروفیسر)، مقرب خاص ( سینیئر رجسٹرار)، درباری ( میڈیکل آفیسرز) اور کمی کمین ( ٹریننگ حاصل کرنے والے ڈاکٹرز ) پائے جاتے ہیں۔

یہ بادشاہ جنگل کے بادشاہ جیسا ہی ہوتا ہے یعنی جی چاہے تو انڈا دے اور جی چاہے تو بچہ، کوئی محکوم بھی حکم حاکم سے سرتابی کا خواب نہیں دیکھتا۔ بادشاہ چاہے دن کے 10 بجے آئے اور آکر ایک چائے کی پیالی پی کر غائب ہو جائے، کس کی مجال کہ کوئی کچھ کہہ سکے۔

یہ بھی پڑھیں: بچے کے دل کی دھڑکن ابھی باقی ہے !

بادشاہ جس کو چاہے نواز دے، جس کو چاہے صلیب پہ لٹکا دے۔ نوازنے میں چھٹیوں سے لے کر کام سکھانے تک کے سب مراحل آتے ہیں۔ اور صلیب پر لٹکانے میں زبانی کلامی انتہا درجے کی چھترول، انکوائری سے لے کر کام نہ سکھانا، ٹھرک پن اور ٹریننگ کے کاغذات پر سائن نہ کرنا ہیں۔

بتائیے کیا کچھ سننا چاہیں گے؟ ہماری پوٹلی میں بہت کچھ ہے۔

ہم ایک بہت بڑے ٹیچنگ اسپتال میں کام کر رہے تھے۔ وارڈ کی سیاست میں کئی پارٹیاں پہلے سے ہی کام کر رہی تھیں۔ ہماری بدقسمتی کہ حالات سمجھنے سے پہلے ہی ہماری دوستی چھوٹی پارٹی سے ہو گئی جو پروفیسر صاحب اور دوسرے بڑوں کے لیے کچھ ناپسندیدہ بھی تھی۔ ناپسندیدگی کی وجوہات میں پارٹی لیڈر کے ابا کا ایک اور وارڈ کا پروفیسر ہونا تھا۔ بڑی پارٹی میں بہت گھاگ اور بااثر لوگ شامل تھے۔

ہماری مزید بدقسمتی دیکھیے کہ چھوٹی پارٹی کے لیڈر اور بڑی پارٹی کے سرکردہ ممبران کے بیچ جھڑپیں زور پکڑ گئیں اور جب فضا میں تناؤ عروج پر تھا تب وارڈ میں کسی چھوٹے موٹے اخبار کے کسی صحافی کی ماں بہن یا بیوی داخل ہو گئی۔ صحافی صاحب بہت کائیاں تھے، چپکے چپکے سب پارٹیوں کا جائزہ لیتے رہے اور پھر ان کا نزلہ بڑی پارٹی کے ممبران اور کرتادھرتا لیڈر پہ گرا۔ خوب مرچ مسالے کے ساتھ خبر اخبار میں چھپی کہ پارٹی ممبران اسپتال کے وارڈ میں مخرب اخلاق حرکتوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے مریضوں کو خاطر خواہ توجہ نہیں دے پاتے ۔ لیجیے جناب خبر کیا چھپی، وارڈ میں قیامت آ گئی۔

مزید پڑھیے: پانچویں مہینے میں پانی کہاں گیا؟

بڑی پارٹی کے ممبران اور ان کے گھاگ کرتا دھرتا کے لیے یہ بہت بڑا شاک تھا۔ اس غم کا صدمہ کم کرنے کے لیے پارٹی ممبران نے پروفیسر صاحب کے پاس جا کر  مگر مچھ کے ٹسوے بہائے، اور گھاگ کرتا دھرتا نے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شک کا الزام چھوٹی پارٹی پہ رکھ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اخبار والوں کو اندر کی اطلاع کسی محرم راز سے ہی مل سکتی ہے۔ کرتادھرتا کا پروفیسر صاحب سے مطالبہ تھا کہ چھوٹی پارٹی کے ممبران کو سزا دے کر نشان عبرت بنا دیا جائے تاکہ رہتی دنیا تک کبھی کوئی ایسی جرات نہ کرے۔

پروفیسر صاحب تھے لائی لگ سو مان گئے لیکن اب ایک اور مسئلہ تھا۔ چھوٹی پارٹی کے جس ممبر پر قوی شک تھا اور جسے سزا دینا مقصود تھا اس ممبر کا بیک گراؤنڈ ایسا تھا کہ سزا دینے سے اسپتال میں پانی پت کی جنگ چھڑ سکتی تھی۔

اب کیا کیا جائے کے مصداق وارڈ کے بڑے سر جوڑ کے بیٹھے بمع گھاگ کرتا دھرتا کے اور منصوبہ بنایا گیا کہ چھوٹی پارٹی کے کسی ایسے ممبر کو سزا دی جائے جس کے آگے پیچھے کوئی نہ ہو یعنی ایک قسم کالاوارث۔۔۔ اور سوچیے  یہ قرعہ ہمارے نام نکلا۔

ہمیں ملزم نامزد کرتے ہوئے پروفیسر صاحب کے دربار میں پیش کیا گیا جہاں پروفیسر اپنی کرسی پر میں کیا کروں کی تصویر بنے بیٹھے تھے اور گھاگ کرتا دھرتا زخمی شیر کی طرح ادھر اُدھر ٹہل رہے تھے۔

ہمیں دفتر میں جانے سے پہلے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس خبر کا نزلہ ہم پر گرنے والا ہے اور ہم کالی بھیڑ قرار دیے جا چکے ہیں۔ کرتا دھرتا نے چیختے ہوئے فرد جرم پڑھ کر ہمیں سنائی جسے ہم نے فورا رد کر دیا۔ جس پہ کرتا دھرتا نے جیب سے  قرانی نسخہ نکالا ( گویا تیاری کر کے آئے تھے) اور ہمیں اس پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے کو کہا۔

ہم عیار تھے نہ مکار۔۔۔ زندگی کے میدان کا تجربہ بھی مختصر ہی تھا سو آنسو پیتے ہوئے قسم بھی کھا لی۔

آج اتنے برسوں بھی وہ منظر آنکھ کے سامنے آتا ہے تو خون کھولنے لگتا ہے کہ منہ کیوں نہیں نوچ لیا ہم نے؟ شور کیوں نہیں مچایا؟

خیر جناب یہ سب کرنے کے باوجود بڑی پارٹی کے ممبران کے غصے کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی اور انہوں نے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کیا، جس کے نتیجے میں فیصلہ کیا گیا کہ ہماری خدمات ( ہم میڈیکل آفیسر تھے ) ایک  دوسرے پروفیسر صاحب کو منتقل کی جائیں یعنی ایک دوسرے شیر کی کچھار میں بھیجنے کی تیاری۔ شاید ساتھ میں کوئی ہدایات وغیرہ بھی ہوں گی کہ کیسا سلوک کیا جائے؟

وارڈ سے نکالے جانے کا فیصلہ ہمیں ہضم نہ ہوا اور ہم مزاحمت کا فیصلہ کرتے ہوئے پرنسپل صاحب کے پاس پہنچ گئے جو بھلے مانس تھے۔ ہم آج بھی ان کے چہرے پر امڈتی حیرت یاد کر سکتے ہیں جو ہمارا قصہ سنتے ہوئی آئی تھی۔ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ انہوں نے ہمارا ساتھ دیا تھا اور ہم نے انہی پروفیسر کے ساتھ کام کیا تھا جن کے سامنے یہ ڈرامہ کھیلا گیا تھا اور وہ کچھ نہیں کر سکے تھے۔ کبھی کبھی جنگل کا بادشاہ اصل میں کوئی اور ہوتا ہے ۔

مزید پڑھیں: جوش ملیح آبادی، ڈاکٹر رشید جہاں اور آج کی اداکارائیں !

ہم نے یہ قصہ کبھی اپنے بھائیوں یا صاحب کو نہیں سنایا، وجہ یہ نہیں تھی کہ ہم ان سے ڈرتے تھے، اصل میں ہمیں اس بات کا زعم تھا کہ ہم سب کچھ خود ہی ہینڈل کر سکتے ہیں۔

مزید میچیور ہونے کے بعد  ہم نے صاحب کو بتایا تو انہوں نے کف افسوس ملا کہ ان کے ہاتھوں بڑی پارٹی کی ٹھکائی نہیں ہو سکی تھی۔

اب ہم سوچتے ہیں کہ کاش مدد لے ہی لی ہوتی، کچھ مناظر کا مزا ہم بھی چکھ لیتے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp