امریکی حکام نے واضح کیا ہے کہ حالیہ فضائی حملوں کا مقصد ایرانی حکومت کا تختہ الٹنا نہیں تھا بلکہ صرف جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانا تھا تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران میں حکومت کی تبدیلی کا عندیہ دیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ ریجیم چینج کہنا سیاسی طور پر درست نہیں، لیکن اگر موجودہ ایرانی حکومت ایران کو دوبارہ عظیم نہیں بنا سکتی تو پھر رجیم چینج کیوں نہ ہو؟
یہ بیان ایسے وقت میں آیا جب نائب صدر جے ڈی وینس اور وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے کہا کہ امریکا ایران کی حکومت کو گرانے کی کوئی کوشش نہیں کر رہا، وزیر دفاع نے وضاحت کی کہ یہ کارروائی حکومت کی تبدیلی کے لیے نہیں بلکہ جوہری پروگرام کو نشانہ بنانے کے لیے تھی۔
آپریشن مڈنائٹ ہیمر
ایرانی جوہری تنصیبات پر کیے گئے ’آپریشن مڈنائٹ ہیمر‘ کی منصوبہ بندی خفیہ رکھی گئی تھی، صرف چند افراد کو واشنگٹن اور امریکی سینٹرل کمانڈ میں اس کا علم تھا، جنرل ڈین کین کے مطابق، سات بی2 بمبار طیارے امریکا سے پرواز کرتے ہوئے ایران میں داخل ہوئے اور فردو جوہری مرکز پر 14 بنکر بسٹر بم گرائے۔
کل 75 درست نشانہ زن ہتھیار، بشمول 25 سے زائد ٹام ہاک میزائل داغے گئے، اس کارروائی میں 125 سے زائد فوجی طیارے شامل تھے جنہوں نے ایران کے 3 جوہری مراکز کو نشانہ بنایا۔
خطے میں تناؤ میں اضافہ
یہ حملے ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب مشرق وسطیٰ پہلے ہی غزہ، لبنان اور شام کی صورتِ حال کے باعث کشیدگی کا شکار ہے۔ اس حملے نے خطے کو مکمل جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق فردو مرکز پر 30 ہزار پاؤنڈ وزنی بموں کی تباہی خلا سے بھی دیکھی جا سکتی ہے، امریکی حکام اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ان حملوں سے ایران کا جوہری پروگرام کئی سال پیچھے چلا گیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ایران کا بڑا نقصان ہوا ہے، جبکہ ایران نے اسرائیل پر میزائل داغ کر جوابی کارروائی کی، جس میں تل ابیب میں کئی افراد زخمی اور عمارات تباہ ہوئیں۔ تاہم ایران نے تاحال امریکا کے خلاف بڑے پیمانے پر کوئی براہِ راست ردعمل نہیں دیا۔
مزید حملوں کا انکار
امریکی فوج نے خطے میں اپنے فوجیوں کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی بڑھا دی ہے، جن میں عراق اور شام میں موجود اہلکار بھی شامل ہیں، پینٹاگون کے مطابق مزید حملوں کی فی الحال کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی، البتہ اگر ایران نے ردعمل دیا تو مزید اہداف موجود ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ ایران کے سپریم لیڈر کی جانب سے جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی براہِ راست حکم سامنے نہیں آیا، لیکن یہ بات ’غیر متعلقہ‘ ہے۔
ٹرمپ نے اگرچہ ماضی میں بیرونی جنگوں میں مداخلت سے گریز کی بات کی تھی، لیکن ایران پر براہ راست حملہ کر کے انہوں نے ایک بڑا فیصلہ کیا ہے، جس سے امریکا اور ایران کے تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔