ایران اسرائیل تنازع کے درمیان چین کی ’محتاط‘ سفارتکاری

بدھ 25 جون 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جب اسرائیل نے 2 ہفتے قبل ایران پر حملہ کیا تو چین، جو ایران کا پرانا دوست ہے، فوری طور پر متحرک ہوا، مگر صرف بیانات کی حد تک۔

چین نے اسرائیلی حملے کی مذمت کی، صدر شی جن پنگ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ٹیلیفون پر جنگ بندی پر زور دیا، اور چینی وزیر خارجہ نے ایرانی ہم منصب سے بات کی۔ لیکن چین نے ایران کو کسی قسم کی عملی یا فوجی مدد فراہم نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں:ایران اسرائیل تصادم کے درمیان چین کہاں کھڑا ہے؟

چین نے معمول کے مطابق صرف بات چیت اور کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی، لیکن کسی قسم کا ہتھیار، مالی امداد یا جنگی تعاون نہیں دیا۔ چین اگرچہ امریکا کا حریف اور عالمی طاقت بننے کا خواہشمند ہے، مگر اس نے مشرق وسطیٰ میں براہِ راست مداخلت سے گریز کیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے پاس نہ تو اتنی سفارتی صلاحیت ہے اور نہ ہی وہ اس قدر خطرہ مول لینا چاہتا ہے کہ اتنے پیچیدہ اور تیزی سے بدلتے حالات میں مؤثر کردار ادا کر سکے۔ اس لیے چین نے محتاط اور غیر جارحانہ رویہ اختیار کیا۔

مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام چین کے مفاد میں نہیں

چینی ماہر ژو فینگ کے مطابق مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام چین کے مفاد میں نہیں ہے، کیونکہ ایران اور اسرائیل کی کشیدگی چین کے تجارتی اور توانائی کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

 2024 کی امریکی رپورٹ کے مطابق ایران کا تقریباً 80 سے 90 فیصد تیل چین کو برآمد ہوتا ہے، اور چینی صنعت اس تیل پر انحصار کرتی ہے۔ اس لیے چین کسی ایسی صورتِ حال سے بچنا چاہتا ہے جس سے اس کی معیشت متاثر ہو۔

یہ بھی پڑھیں:چین اب ایران سے تیل خرید سکتا ہے،امید ہے امریکا سے بھی خریدے گا : ڈونلڈ ٹرمپ

جب ایرانی پارلیمان نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی تجویز دی تو چین نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ دنیا کو چاہیے کہ وہ خطے میں کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرے تاکہ عالمی معیشت پر منفی اثر نہ پڑے۔

امریکا کے صدر ٹرمپ نے جنگ بندی کے بعد سوشل میڈیا پر لکھا کہ:

’چین اب ایران سے تیل خرید سکتا ہے‘۔

یعنی جنگ بندی سے ایرانی تیل کی فراہمی بحال رہے گی۔

واشنگٹن میں قائم ایک تھنک ٹینک کے ماہر کریگ سنگلٹن کے مطابق چین کا ردعمل صرف تیل کی خریداری اور ’مذاکرات کی اپیل‘ تک محدود رہا۔ نہ چین نے ایران کو ڈرون دیے، نہ میزائل کے پرزے، نہ ہی کوئی ایمرجنسی قرض کی سہولت دی۔ صرف وہی الفاظ کہ جن سے تہران خوش رہے اور سعودی عرب یا امریکا ناراض نہ ہوں۔

ان کے بقول، چین کی ایران سے شراکت داری صرف کاروباری ہے، جنگی نہیں۔ جب جنگ چھڑتی ہے تو چین کی بڑی بڑی باتیں صرف بیانات میں رہ جاتی ہیں۔ وہ ایران سے سستا تیل چاہتا ہے اور خود کو ثالث کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے، جبکہ اصل خطرہ امریکا پر چھوڑ دیتا ہے۔

اقوام متحدہ میں چین نے روس اور پاکستان کے ساتھ مل کر ایک قرارداد پیش کی جس میں ایران کی پرامن جوہری تنصیبات پر حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم امریکا غالباً اس قرارداد کو ویٹو کر دے گا۔

چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ چین اسرائیل کی جانب سے ایرانی خودمختاری اور سلامتی کی خلاف ورزی کی کھلی مذمت کرتا ہے، اور ایران سمیت دیگر فریقوں سے رابطے میں رہنے کو تیار ہے تاکہ حالات کو بہتر بنایا جا سکے۔

وانگ نے عمان اور مصر کے وزرائے خارجہ سے بھی بات کی، کیونکہ دونوں ممالک خطے میں ثالثی کا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ صدر شی جن پنگ نے روسی صدر پیوٹن سے بھی بات کی تاکہ ایران کے مسئلے پر مشترکہ حکمت عملی بنائی جا سکے، لیکن چین اور روس دونوں نے جنگ میں براہ راست شمولیت سے گریز کیا۔

ایران چین کے عالمی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا اہم حصہ ہے اور 2023 میں وہ شنگھائی تعاون تنظیم میں بھی شامل ہو چکا ہے، جو کہ روس اور چین نے نیٹو کے مقابلے میں قائم کی ہے۔

ایران نے چین اور روس کے ساتھ مشترکہ بحری مشقوں میں بھی حصہ لیا ہے، جیسے کہ 2025 کی ’میرٹائم سیکیورٹی بیلٹ‘ مشق۔

نیویارک میں قائم ساؤفان سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق چین کا ایران جیسے شراکت داروں سے تعاون اس وقت محدود ہو جاتا ہے جب امریکا یا مغربی دنیا کے ساتھ براہِ راست تصادم کا خدشہ ہو۔

چین اپنے معاشی مفادات کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں اور کسی بڑی طاقت سے محاذ آرائی سے بچنے کو ترجیح دیتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp