بارش نہیں، حکومتی نااہلی کی طغیانی ہے!

جمعہ 18 جولائی 2025
author image

انعم ملک

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں حالیہ شدید مون سون بارشوں نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہم نہ صرف قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت سے محروم ہیں، بلکہ بدانتظامی، غفلت اور ناقص منصوبہ بندی نے اس تباہی کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔

جون کے اختتام سے جولائی کے وسط تک جاری رہنے والی بارشوں، گلیشیئرز کے پگھلنے اور ندی نالوں میں طغیانی کے نتیجے میں اب تک 180 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، جن میں معصوم بچے، خواتین اور بزرگ شامل ہیں۔

سب سے زیادہ نقصان پنجاب، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں ہوا، جہاں مکانات، سڑکیں، پل، دکانیں، فصلیں اور مویشی تباہ ہو چکے ہیں۔ صرف پنجاب میں ایک دن میں 128 مکانات مکمل یا جزوی طور پر منہدم ہوئے اور 390 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔

زرعی اور صنعتی شعبے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ گندم، کپاس، چاول، سبزیاں اور دیگر فصلیں زیرِ آب آ گئی ہیں، جس سے کاشتکاروں کو نہ صرف معاشی نقصان ہوا بلکہ ملک کو غذائی قلت اور مہنگائی کے خطرے نے بھی گھیر لیا ہے۔

گلگت بلتستان جیسے علاقے جہاں گلیشیئرز کے اچانک پگھلنے سے پیدا ہونے والے فلیش فلڈز نے زرخیز زمینوں کو تباہ کیا، وہاں سیاحتی صنعت بھی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔

بدقسمتی سے، ان مسائل کی نشاندہی کرنے والوں کو دبایا جا رہا ہے، سچ بولنے والوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے، اور نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے ’سافٹ ویئر اپڈیٹ‘ جیسے لطیفے بنائے جا رہے ہیں۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ حقائق کو دبانے سے وہ ختم نہیں ہو جاتے۔ اگر 2022 کے تباہ کن سیلابوں سے کچھ سیکھ لیا گیا ہوتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔ لیکن ہم نے نہ نکاسیِ آب کا نظام بہتر کیا، نہ شہری منصوبہ بندی پر توجہ دی، نہ موسم کی شدت کو دیکھتے ہوئے پیشگی اقدامات کیے۔

عالمی سطح پر ماحولیاتی ماہرین مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے والے چند اولین ممالک میں شامل ہے۔

جرمن واچ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار ان پانچ ممالک میں ہوتا ہے جو گزشتہ 2 دہائیوں میں موسمیاتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، حالانکہ ہمارا کاربن اخراج عالمی سطح پر نہایت کم ہے۔

معروف عالمی ماہرِ موسمیات ڈاکٹر ایرک ہالبس کے مطابق، پاکستان میں موسم کی شدت، گلیشیئرز کے پگھلنے اور مون سون پیٹرن میں بگاڑ، عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا براہِ راست نتیجہ ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان خطرات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں آفات سے نمٹنے کا نظام بارہا ناکامی کا شکار ہوا ہے۔ بڑے شہروں میں نکاسیِ آب کا نظام ہر سال کی طرح اس بار بھی مکمل طور پر ناکام رہا۔

لاہور، راولپنڈی اور کراچی جیسی شہری آبادیوں میں سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگیں۔ نالوں کی صفائی، بروقت وارننگ سسٹمز، اور انفراسٹرکچر کی بہتری کے تمام حکومتی دعوے صرف کاغذوں میں محدود رہے۔

پاکستانی ماہرِ موسمیات ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ ہم ہر سال مون سون کے حوالے سے بروقت پیش گوئیاں کرتے ہیں، لیکن متعلقہ ادارے ان پر عمل نہیں کرتے، جس کے باعث نقصان میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک جیسے جاپان، نیدرلینڈز، اور کوریا میں بارشیں ہم سے زیادہ شدت کی ہوتی ہیں، لیکن جدید انفراسٹرکچر، ضابطوں پر عمل درآمد، اور ریاستی ہم آہنگی کے باعث وہ ان آفات کو قابو میں رکھتے ہیں۔

ہمیں بھی اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کب تک ہر سال کی تباہی کو قدرت کے کھاتے میں ڈال کر اپنے فرائض سے غفلت برتتے رہیں گے۔ ضروری ہے کہ ہم فوری طور پر پیشگی وارننگ سسٹمز کو جدید بنائیں، نکاسیِ آب کے نظام کو بہتر کریں، غیر قانونی تعمیرات کے خلاف مؤثر اقدامات کریں، اور ماحولیاتی تبدیلی کو قومی سلامتی کی پالیسی کا حصہ بنائیں۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ یہ آفات ہماری اپنی کوتاہیوں، بدعنوانی اور ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی اپنی روش نہ بدلی تو ہر برسات، ہر موسم، اور ہر قدرتی جھٹکا ہمیں نئی قبریں، نئے جنازے، اور نئے نقصان دے جائے گا۔ بارشیں صرف پانی نہیں لاتیں، وہ ہمارے اجتماعی ناکام نظام کا پردہ چاک کر جاتی ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp