ہمیں کوئی غم نہیں کہ حمیرا اصغر کی موت اپنے گھر میں اکیلے زندگی گزارتے کیوں اور کس حال میں ہوئی . . .!
ہم ہر گز شرمندہ نہیں کہ حمیرا نے اکیلے زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ….!
کیوں؟
کیونکہ وہ ایک انسان تھی، ہمیں علم ہے عورت کا انسان ہونا یا عورت کو انسان کہا جانا آپ کو عجیب اور غیر مانوس سا لگ رہا ہو گا، لگ رہا ہے نا؟
وہ انسان تھی اور ایک فرد بھی۔ اور ایک فرد کی حیثیت سے یہ اُس کا نجی حق تھا کہ بالغ ہونے کے بعد وہ جیسے چاہے رہے، جس سے چاہے ملے جس سے چاہے نہ ملے . . .
لیکن ہمیں دکھ اس بات کا ہے کہ معاشرے نے اکیلے زندگی گزارتے فرد کو اس بات کا سزاوار ٹھہرایا ہے کہ اس نے یہ فیصلہ کیوں کیا ؟ یہی بات دلیل بھی بنائی جا رہی ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ معاشرہ ہوتا نہیں ہے، بنتا ہے۔ فرد کی جمع افراد سے، یعنی اس میں فرد پہلی اور بنیادی اکائی کی حثیت رکھتا ہے … اگر یہ فرد اپنی نجی زندگی کو دوسروں پر کھولنا نہیں چاہتا تو یہ اس کا بنیادی حق ہے اور ذرا سی توجہ دیں تو ہم سب ہر بات میں یہی چاہتے ہیں۔ ہمارا طرز معاشرت : رہن، پہن، سہن تمام کا تمام اسی ایک اصول پر استوار ہوتا ہے اور مدت سے ہو رہا ہے۔ لیکن کیا اس کا مطلب یہ بھی نکل سکتا ہے کہ معاشرہ اس فرد سے کٹ جائے؟ معاشرہ، معاشرہ ہونا بھول جائے، معاشرتی پن چھوڑ دے؟
ذرا رکیے، یہاں ہمیں افرادی نجی زندگی اور تنہائی میں فرق کو سامنے لانا ہو گا. . .
افرادی نجی زندگی وہ ہے جس میں فرد اپنے بارے میں اپنے اصول اپنی ذات کے حوالے سے ترتیب دیتا ہے اور اس اصول کو گھر سے معاشرے تک مانا اور برتا جاتا ہے۔ یہی اصول ہمیں آپ کی زندگی میں دخل اندازی سے روکتا ہے اور آپ کو ہماری ، جب تک ہم دونوں ایسا نہ چاہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ماسک کیوں پہنا جائے؟
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں بطور معاشرہ ہم آپ کو تنہا چھوڑ دیں۔ آپ کو سڑک پر کوئی لوٹے تو ہم منہ پھیر کر چل دیں، آپ کی گاڑی کسی ٹوٹی ہوئی سڑک کی وجہ سے حادثے کی شکار ہو جائے اور ہم اسے نجی زندگی اور پرائیویسی کے کھاتے میں ڈال کر چلتے بنیں یا انکھیں بند کر لیں۔
آپ کا اکیلے پن کا حق معاشرتی اکیلا پن نہیں بن سکتا۔ آپ کا احساسِ تنہائی معاشرتی احساس تنہائی بنے کا تو معاشرہ ختم ہو جائے گا۔
ہر گھر کا دروازہ اندر سے بند بھی ہونے کا حق رکھتا ہے، اس کا مشاہدہ آپ ہر گھر اور ہر دروازے سے کر سکتے ہیں۔ یہی فرد اور معاشرے کا رشتہ ہے۔ اگر کوئی اندر سے دروازہ بند کیے بیٹھا ہو تو آپ باہر سے تالہ نہیں لگا سکتے۔ اندر بیٹھے فرد کے دروازے کو باہر سے بند کرنا ہمیں سزا وار بناتا ہے۔
یہی وہ پہلو ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فرد اوجھل ہو سکتا ہے لیکن معاشرہ آنکھ نہیں پھیر سکتا۔ ہم اپنے ہمسائے اور گرد وپیش بے خبر نہیں رہ سکتے۔ لیکن یہ خبر گیری ہمیں پولیسنگ کا اختیار نہیں دیتی۔
حمیرا اصغر کی مثال لے لیتے ہیں . . .
بھراپرا شہر اور اس میں ایک فلیٹ میں قیام پذیر حمیرا . . . جس کا خاندان لاہور میں آباد ہے۔ حمیرا سوشل میڈیا پر ایکٹو اور آخری پوسٹ اکتوبر 2024 میں …
حمیرا اس فلیٹ میں سال 2018 سے مقیم اور 6 سال باقاعدگی سے کرائے اور بلز کی ادائیگی …
ملنے جلنے والے، شناسا، ہمسائے، رشتے دار، ماں باپ، بہن بھائی، دوست، مالک مکان، بلڈنگ چوکیدار، شو بزنس کے ساتھی … اکتوبر 2024 کے بعد سب سے رابطہ منقطع …
کیا یہ ڈھیروں افراد، جن سے حمیرا کی کسی نہ کسی صورت میں وابستگی تھی نے سوچا کہ آخر وہ نظر کیوں نہیں آرہی ؟
اسکا موبائل فون بند کیوں ہے؟
کرائے کی ادائیگی کیوں نہیں ہوئی؟
سوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ کیوں نہیں؟
کیا معاشرہ اکیلے جینے والے کو یوں تنہا کر سکتا ہے کہ اس کی عدم موجودگی کا کسی پہ کوئی اثر نہیں ہوتا؟
اسے چھوڑیں کہ اس کا تعلق تو میڈیا اور شو بزنس سے بھی تھا، نہ ہوتا تو؟
جن کا نہیں ہوگا کیا اُنہیں یہی، ایسی ہی موت ملے گی؟
کیا ان سے ایسی ہی بیگانگی برتی جائے گی؟
بہن بھائیوں کو چھوڑیے مگر وہ جس کی کوکھ سے جنم لیا تھا، نے بھی نہیں سوچا کیا ہوا آخر؟ کہاں ہے وہ؟ کوئی جا کے دیکھے تو؟ شاید کسی مدد کی ضرورت ہو؟
مگر چلن یہ ہے کہ ایسا کیوں سوچا جائے؟
مزید پڑھیے: آپ ڈینگی، ہیپاٹائٹس سی، چیچک اور ایڈز وائرس کو مانتے ہیں، تو پھر۔۔۔
ذہنیت یہ ہے کہ اگر ایک عورت اپنی مرضی کی زندگی گزارنے نکلے اور اس کے ساتھ کسی مرد کا ٹیگ نہ ہو، اسے سزا کیوں نہ دی جائے؟
تنہائی کی سزا … چھوڑ دینے کی سزا …
اور یہ صرف حمیرا اصغر ہی نہیں بہت سے لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے جہاں معاشرہ خود ہی عدالت لگا کر یا عدالت لگائے بغیر بھی سزا سنا دیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ معاشرہ 21ویں صدی کا ہم رکاب کیوں نہیں جہاں معاشرے کی ایک آنکھ کھلی اور ایک بند رہنی چاہیے … اُسے کسی کے اکیلے رہنے پہ کوئی اعتراض ہو نہ کوئی شک …
لیکن اگر دونوں آنکھیں، آنکھیں ہی نہیں کان اور دماغ بھی بند رکھیں گے تو سب تل پٹ ہو جائے گا۔
مزید پڑھیں: ڈاکٹروں کی سیاست!
مغرب جسے ہم ہر وقت لعن طعن کرتے نہیں تھکتے ، وہاں ہمسائے / مالک مکان / شناسا کبھی بھی اس طرح کا طرز عمل روا نہیں رکھتے . . .
یہاں ہم اپنی بیٹی کی مثال دینا چاہتے ہیں . . . نیویارک میں اکیلی رہتی ہیں، نہ ماں باپ بہن بھائی ساتھ ہیں، نہ کوئی عزیز رشتے دار … جس بلڈنگ میں رہتی ہیں، اس کے مالک مکان اس قدر concerned ہیں کہ اگر کبھی 2،4 دن نظر نہ آئیں تو فون کر مارتے ہیں کہ ٹھیک تو ہو؟
وقت آ گیا ہے کہ معاشرے کو جنگل اور جنگلی پن سے، بے حسی، سنگدلی اور لاتعلقی کے فروغ اور بیگانگی سے بچانے کا سوچا جائے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔