اپنا گھر یا ملک چھوڑنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا لیکن پھر بھی لوگ اسے چھوڑنا چاہتے ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات اور لوگوں کے ابتر مالی حالات ہیں۔
پاکستان میں رہنے والے زیادہ ترلوگوں کو بیرون ملک رہنے والوں کے مسائل سے زیادہ وہاں کی رنگین زندگی اچھی لگتی ہے، اسی لیے نوجوان نسل کی حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ وہ تعلیم یا روزگار کے لیے بیرون ملک چلے جائیں اور پھر وہاں مقیم ہوجائیں کیونکہ یورپ میں تعلیم اورروزگار کے مواقع کے علاوہ پاسپورٹ ملنے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے موقع ملتے ہی وہ اس خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔
سوال یہ ہے کہ کیا دور سے دکھائی دینے والی یہ زندگی ویسی ہی حسین ہے جیسی نظر آتی ہے؟ یا صرف ’دور کے ڈھول سہانے‘ والا محاوہ درست ہے؟
بعض لوگ تمام تر مشکلات کے باوجود اپنے ملک میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ پردیس میں انسان کو ہر طرح کے حالات سے گزرنا پڑتا ہے، وہاں سب سہولیات میسر آتی ہیں لیکن ہر لمحہ اپنے وطن اور وہاں کے کلچر کی یاد ستاتی ہے۔ اپنا وطن اپنا ہی ہوتا ہے کیونکہ دوسرے ملک جا کر رہنا اور پھر وہاں کی مشکلات کا اندازہ صرف اپنا گھربار چھوڑ کر جانے والا ہی کرسکتا ہے۔ ہرچیز کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے اورلوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر وہ قیمت ادا کرتے ہیں۔
اسی تناظر میں ایک ٹویٹ سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں لکھا گیا کہ بیرون ملک جانا اور وہاں دوسرے درجے کا شہری بننا مجھے کبھی بھی پسند نہیں رہا، بیرون ملک رہنے والے اپنے لوگوں کی جدوجہد کے بارے میں ہم سنتے رہتے ہیں۔ اپنا ملک اپنا ہی ہوتا ہے اس لیے شکر ادا کیا کریں۔
Going abroad & becoming a second class citizen in someone else's country never really appealed to me & i always thought to myself, I'd only do it if i can't reach my goals here. Hearing about the struggles of my ppl abroad, honestly jesa b hai, apna mulq apna hai, shukar kia karo
— Zohad (@Zohadtweets) May 8, 2023
اس ٹویٹ کے ساتھ ہی ان صارفین کا تنقیدی سلسلہ شروع ہو گیا جو بہتر مواقع کی تلاش میں بیرون ملک جانا چاہتے ہیں۔
ایک صارف نے لکھا کہ بیرون ملک جانے والوں کی اکثریت مڈل کلاس ہے جو یہاں تیسرے درجے کے شہری سمجھے جاتے ہیں، لیکن جو لوگ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے ہوں، انہیں کیا فرق پڑتا ہے، وہ پاکستان میں بھی فرسٹ کلاس شہری ہیں۔
جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے ہوں انکے لیے کیا فرق پڑتا وہ پاکستان میں بھی فرسٹ کلاس شہری ہیں.
بیرون ممالک میں بھاگنے والی اکثریت مڈل کلاس ہے جو یہاں تیسرے درجے کے شہری سمجھے جاتے ہیں https://t.co/Ab7JSwvcx0— Ex Sherlock (@amerishfak) May 9, 2023
پاکستان کےبگڑتے معاشی حالات اورنوجوانوں کے لیے مناسب مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بعض دلبرداشتہ صارفین بیرون ملک دوسرے درجے کے شہری بننے پر بھی راضی ہیں اسی حوالے سے زنیرہ اکبر نامی صارف لکھتی ہیں کہ مجھے کسی اور ملک میں دوسرے درجے کا شہری بننا ہے بس !
Bhai mujhe dusre mulk main second class citizen ban’na hai bas https://t.co/8F9RArajja
— Zunaira Akbar (@Zunairameh) May 9, 2023
بعض صارفین نے اس نوجون کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی مضحکہ خیز ہے کیونکہ ہمارے ساتھ پہلے ہی دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، صرف مراعات یافتہ پسِ منظر کے لوگ ہی ایسی ٹویٹس کر سکتے ہیں۔
https://twitter.com/LordJingLin/status/1655664742147432464?s=20
جہاں کچھ لوگوں نے اس پر تنقید کی وہیں چند صارفین نے اس پر مزاحیہ انداز میں دلچسپ تبصرے کیے، ملک اعوان نامی صارف نے کہا کہ ’اس کی مت سنو، اور بھاگ جاؤ۔‘
Don't listen to him
Tay nasso jaldi https://t.co/JIDsvrlyHr— Malik. (@WaeedAhmedd) May 8, 2023
مقبول ترین سماجی رابطے کی ویب سائیٹ فیس بک پر ایک پیج کی جانب سے میم شیئر کی گئی جس میں لکھا تھا کہ یا اللہ میری وہ سب خطائیں معاف فرما جن کی وجہ سے میرا کینیڈا کا ویزا نہیں لگ رہا۔
ایک صارف نے لکھا کہ اس نوجوان کی ٹوئیٹ دیکھ کر لگتا ہے جیسے اس کے پاس زندگی بھر کے لیے کافی دولت ہو۔
https://twitter.com/omnifan3000/status/1655702918962774019?s=20
واضح رہے کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) نے دسمبر2022 میں ایک سروے رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق تقریباً 37 فیصد پاکستانیوں کو اگر موقع ملے تو وہ بیرون ملک جا کر مقیم ہوجائیں گے۔