بلوچستان کی مخلوط حکومت میں وزیراعلیٰ کی مدت کے حوالے سے اتحادی جماعتوں کے بیانیے میں تضاد کھل کر سامنے آگیا ہے جو آگے چل کر اختلافات کا باعث بن سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان حکومت کا شفافیت کے فروغ اور بجٹ میں 14 ارب روپے کی بچت کا دعویٰ
ایک جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی علی مدد جتک نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی اپنی 5 سالہ مدت پوری کریں گے اور اتحادی جماعتوں سمیت سب ان کے ساتھ ہیں جبکہ دوسری جانب صوبائی وزیر نور محمد دمڑ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان پہلے سے طے شدہ معاہدے کے تحت وزیراعلیٰ کا منصب ڈھائی، ڈھائی سال کے لیے تقسیم کیا گیا ہے۔
علی مدد جتک نے کہا کہ ’میں یقین سے کہتا ہوں کہ پورے 5 سال وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی ہی رہیں گے اور پیپلز پارٹی، ن لیگ اور دیگر اتحادی سب اس پر متفق ہیں‘۔
ان کے بقول پیپلز پارٹی اپنی پوری قوت کے ساتھ وزیراعلیٰ کے پیچھے کھڑی ہے اور اس حوالے سے کسی بھی طرح کا ابہام پیدا کرنے کی کوشش محض افواہیں ہیں۔
تاہم صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے اس مؤقف کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان کے مطابق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ڈھائی، ڈھائی سالہ اقتدار کی تقسیم کا معاہدہ پہلے ہی طے پا چکا ہے اور یہ محض سیاسی وعدہ نہیں بلکہ ایک دستاویزی شکل میں موجود ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ فیصلہ ہماری پارٹی قیادت نے کیا ہے اور وقت آنے پر ن لگ کا وزیراعلیٰ سامنے آئے گا‘۔
مزید پڑھیے: بلوچستان کی مخلوط حکومت میں اختلافات، سرفراز بگٹی کی وزارت اعلیٰ خطرے میں؟
بلوچستان میں مخلوط حکومتیں ہمیشہ سے سیاسی معاہدوں اور پاور شیئرنگ فارمولوں پر چلتی آئی ہیں۔ سب سے نمایاں مثال سنہ 2013 کی ہے جب ن لیگ اور نیشنل پارٹی نے ڈھائی، ڈھائی سال کے لیے وزیراعلیٰ کا عہدہ بانٹنے پر اتفاق کیا تھا۔
اس فارمولے کے تحت پہلے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ بنایا گیا جنہوں نے اپنی نصف مدت پوری کی۔ اس کے بعد معاہدے کے مطابق وزارتِ اعلیٰ ن لیگ کے نواب ثناء اللہ زہری کو منتقل کی گئی۔
مزید پڑھیں: بلوچستان حکومت کا لیویز فورس میں اصلاحات کا اعلان، پرانے نوٹیفکیشنز منسوخ
اس سے قبل بلوچستان میں حکومت سازی کے دوران بھی یہ سننے میں آیا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ڈھائی ڈھائی سالہ پاور شئیرنگ کا معاملہ پا گیا ہے جس پر اس وقت گورنر بلوچستان اور مسلم لیگ ن بلوچستان کے صوبائی صدر جعفر خان مندوخیل نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان وزیر اعلیٰ کے منصب کے لیے ڈھائی ڈھائی سال کا معاہدہ ہے جس پر پی پی پی کے سینیئر رہنما میر عبد القدوس بزنجو نے ایسے کسی بھی معاہدے کی تردید کی تھی۔
اگرچہ اس پاور شیئرنگ ماڈل کے نتیجے میں حکومت نے آئینی مدت تو مکمل کی لیکن درمیان میں سیاسی کشیدگی بھی سامنے آئی خصوصاً جب نواب ثناء اللہ زہری کو اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی تحریک عدم اعتماد کے دباؤ پر مستعفی ہونا پڑا۔ اس مثال نے یہ واضح کیا کہ بلوچستان میں پاور شیئرنگ فارمولے وقتی استحکام تو فراہم کرتے ہیں لیکن طویل المدت سیاسی استحکام کی ضمانت نہیں دے پاتے۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان کی سیاسی تاریخ: نصف صدی کے دوران کتنی مخلوط حکومتیں مدت پوری کر سکیں؟
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں وزیراعلیٰ کے منصب پر اختلافات کوئی نئی بات نہیں لیکن اب یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ آیا موجودہ حکومت بھی سنہ 2013 والے ’پاور شیئرنگ ماڈل‘ پر چل رہی ہے یا نہیں۔ اگر واقعی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان تحریری معاہدہ موجود ہے تو مستقبل قریب میں اقتدار کی منتقلی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر علی مدد جتک کا دعویٰ درست ہے اور پیپلز پارٹی اپنی مدت پوری کرنے پر اصرار کرتی ہے تو یہ اتحادیوں کے درمیان تناؤ کو جنم دے سکتا ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ اکثر حکومتیں مرکز صوبہ کشیدگی یا اتحادی اختلافات کے باعث اپنی مدت پوری نہیں کر سکیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں پاور شیئرنگ فارمولوں نے سیاسی استحکام پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مزید پڑھیں: بلوچستان حکومت کا بینک آف بلوچستان کے قیام کا اعلان
اس پس منظر میں دیکھیں تو نور محمد دمڑ کا بیان زیادہ حقیقت پسندانہ معلوم ہوتا ہے لیکن فیصلہ وقت ہی کرے گا کہ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی اپنی 5 سالہ مدت پوری کر پاتے ہیں یا ڈھائی سال بعد اقتدار ن لیگ کو منتقل ہو جاتا ہے۔