گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کا استعفیٰ تاحال اُن کے دفتر کو موصول نہیں ہوا، اور اگر اس میں کوئی قانونی یا آئینی ابہام پایا گیا تو اسے واپس بھیجا جا سکتا ہے۔
انہوں نے جیونیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی استعفیٰ موصول ہوگا، وہ اس کا جائزہ لیں گے تاکہ گنڈا پور کے فیصلے کی وجوہات کو سمجھا جا سکے۔
’اگر کسی بھی قسم کا قانونی یا آئینی ابہام ہوا تو استعفیٰ واپس کیا جا سکتا ہے۔‘
فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ تمام قانونی تقاضے آئین کے مطابق پورے کیے جائیں گے۔
گنڈا پور کا استعفیٰ اور پس منظر
گورنر کا یہ بیان وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کے ایک دن بعد سامنے آیا۔ گنڈا پور کے مطابق یہ فیصلہ تحریکِ انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے خیبر پختونخوا: علی امین کے استعفیٰ کے بعد سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ، پشاور میں کیا ہو رہا ہے؟
واضح رہے کہ وزیراعلیٰ گنڈا پور نے اپنے ایکس (سابق ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر لکھا تھا ’اپنے قائد اور تحریکِ انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے حکم کی تعمیل میں، میرے لیے یہ اعزاز ہے کہ میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے عہدے سے اپنا استعفیٰ پیش کر رہا ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے وزارتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالا تو صوبہ مالی بحران اور دہشت گردی کے چیلنجز سے دوچار تھا۔
تحریکِ انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے بھی تصدیق کی کہ یہ فیصلہ عمران خان کی ہدایت پر کیا گیا ہے۔
In respectful compliance of the orders of my leader, and Founding Chairman Pakistan Tehreek-e-Insaf, Imran Khan, it is my honour to tender my resignation from the Office of the Chief Minister, Khyber Pakhtunkhwa.
When I took over as Chief Minister, the province was faced with a… pic.twitter.com/b43onAVAby
— Ali Amin Khan Gandapur (@AliAminKhanPTI) October 8, 2025
آئینی عمل اور اگلے مراحل
سابق ایڈووکیٹ جنرل عامر جاوید کے مطابق گورنر کے پاس استعفیٰ قبول کرنے کے لیے 14 دن کا وقت ہوتا ہے۔ اس دوران وزیراعلیٰ اپنے منصب پر برقرار رہتے ہیں۔ استعفیٰ قبول ہونے کے بعد اسمبلی نیا وزیراعلیٰ منتخب کرے گی۔ یادرہے کہ خیبر پختونخوا میں وزیراعلیٰ کے امیدوار کو کم از کم 73 ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔
تحریکِ انصاف میں اختلافات
گنڈا پور کا استعفیٰ ایسے وقت میں آیا ہے جب تحریکِ انصاف کے اندرونی اختلافات کی خبریں زور پکڑ چکی ہیں۔
ذرائع کے مطابق علی امین گنڈا پور اور علیمہ خان (عمران خان کی بہن) کے درمیان شدید تناؤ پیدا ہوا، جس کے بعد عمران خان نے دونوں کو بیانات دینے سے روکا۔
گنڈا پور نے الزام لگایا تھا کہ کچھ ’وی لاگرز‘ پارٹی میں پھوٹ ڈالنے اور علیمہ خان کو اگلی چیئرپرسن اور وزیراعظم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ علیمہ ان وی لاگرز کو روکنے کے بجائے اُن کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے علی امین گنڈاپور نے وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دینے کی ٹوئٹ ڈیلیٹ کردی
سیاسی تجزیہ کار شاہ زیب خانزادہ نے اپنے تبصرے میں کہا، ایسا لگتا ہے کہ اس مرحلے پر علیمہ خان غالب آ گئی ہیں۔ گنڈا پور اور عمران خان کے درمیان اختلافات کوئی نئی بات نہیں۔
گنڈا پور کی پوزیشن کچھ عرصے سے خطرے میں تھی، خاص طور پر اس وقت جب ان کے اور بشریٰ بی بی کے تعلقات کشیدہ ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں۔