وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل افریدی کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں سیاسی، قانونی اور انتظامی معاملات پر اہم فیصلے کیے گئے۔ اجلاس کے آغاز میں وزیرِاعلیٰ نے ریڈیو پاکستان پر 9 مئی کے حملے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن کے قیام کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن تمام شواہد، خصوصاً سی سی ٹی وی فوٹیج جمع کرکے ذمہ داروں کا تعین کرے گا اور اپنی رپورٹ کابینہ کو پیش کرے گا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن امن ہم سب کا مشترکہ ہدف ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز امن جرگے میں شریک تمام سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں پائیدار امن کے لیے تمام قوتوں کا متحد ہونا ناگزیر ہے۔
مزید پڑھیں: امن جرگہ کے حوالے سے فائنل ڈرافٹ تیار، تمام فریقین کو اعتماد میں لے لیا گیا، شفیع جان
اجلاس میں وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ صوبائی اسمبلی کی تمام قراردادوں پر مکمل عملدرآمد کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سب سے اہم قرارداد ’ایکشن اِن ایڈ آف سول پاورز‘ کے خاتمے سے متعلق ہے، جو بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے۔
وزیراعلیٰ نے سود سے پاک خیبر پختونخوا کے قیام کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل قرار دیتے ہوئے کہا کہ صوبہ سود کے نظام سے نجات کے لیے جامع پالیسی مرتب کررہا ہے اور جلد اسلامک انوسٹمنٹ ماڈل متعارف کرایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی اسمبلی کی متفقہ رائے ہے کہ بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ساتھ جیل میں ناروا سلوک کیا جارہا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ساڑھے 4 کروڑ عوام کے منتخب وزیراعلیٰ کو اپنے بانی چیئرمین سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ سہیل آفریدی کا کہنا تھا کہ وہ عمران خان سے ملاقات کرکے حکومتی پالیسی گائیڈلائنز لینا چاہتے ہیں، لیکن اس کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ بانی چیئرمین اور ان کی اہلیہ کو اپنے ذاتی معالج سے ملاقات کی اجازت دینا ان کا بنیادی حق ہے۔
مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا میں منعقدہ جرگے کے بڑے مطالبات، عملدرآمد کیسے ہوگا اور صوبائی حکومت کیا کرےگی؟
اپنی پالیسی ترجیحات بتاتے ہوئے سہیل آفریدی نے کہا کہ حکومت کے تمام اصلاحاتی اقدامات منتخب نمائندوں کی مشاورت سے کیے جائیں گے۔ کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی پر سختی سے عمل ہوگا اور حکومتی فنڈز کو ذاتی تشہیر کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے کابینہ اراکین کو ہدایت کی کہ تمام فیصلے میرٹ اور مکمل شفافیت کی بنیاد پر کیے جائیں۔ تمام قوانین کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے گا اور جن قوانین میں عوامی مفاد کے خلاف شقیں موجود ہیں انہیں ختم کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ خامیوں کی نشاندہی کرکے ضروری ترامیم تجویز کی جائیں تاکہ حکومت کی قانون سازی حقیقی معنوں میں عوامی مفاد کا تحفظ کرسکے۔














