پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں آواران کے علاقے میں خاتون معلمہ کی جانب سے خود کشی کرنے کے واقعہ کی تفتیش کے لیے ایک شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ 2 ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس چھاپے مار رہی ہے۔
خاتون معلمہ کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام میں لیویز اہلکار سمیت 3 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا اور ایس ایچ او داد محمد بلوچ کے مطابق مقدمے میں نامزد ایک ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ 2 کی تلاش جاری ہے۔
خود کشی کرنے والی خاتون معلمہ کے والد نے الزام عائد کیا ہے کہ مسماۃ (ن) رضاکارانہ طور پر اسکول میں بچوں کو پڑھاتی تھی جہاں نور بخش نامی لیویز اہلکار اور اس کے 2 ساتھی ہراساں کرتے رہے جس سے تنگ آکر اس نے خود کشی کی۔
خود کشی کرنے والی خاتون کے والد نے بتایا کہ میری بیٹی ہراساں کرنے کی وجہ سے بہت پریشان تھی۔ اس نے ہمیں بتائے بغیر خاموشی سے زندگی کا خاتمہ کر دیا۔
خاتون کے والد دلسرد بلوچ کے مطابق بیٹی کی شکایت پر ہم نے لیویز اہلکار سے بات بھی کی تھی جس پر اس نے یقین دہانی کروائی کہ مستقبل میں ایسا واقعہ نہیں ہوگا۔ میں کسی کام کے سلسلے میں 10 روز کے لیے علاقے سے باہر گیا تو واپسی پر معلوم ہوا کہ بیٹی دنیا میں نہیں ہے۔
خاتون کی والدہ نے کہا کہ ہم نے ڈپٹی کمشنر اور علاقے کے با اثر افراد سے لیویز اہلکار نور بخش کی شکایت بھی کی تھی مگر کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔
اسسٹنٹ کمشنر آواران سے جب اس حوالے سے موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ واقعہ آواران کے گاؤں گیشکور میں 15 مئی کو پیش آیا۔ لواحقین کی درخواست پر خود کشی کے واقعہ کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
دوسری جانب خود کشی کرنے والی خاتون معلمہ کے والد نے وزیراعظم، آرمی چیف اور وزیراعلیٰ بلوچستان سے معاملے کی شفاف تحقیقات اور ملزمان کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی اپیل کی ہے۔