سیدہ المسلمہ
دنیا میں رہنے کا حق صرف اسی کو ہے جو طاقتور ہے ۔ جو قدرتی انتخاب کی چھلنی سے چھن چھن کر نکلا ہے، ایسی انواع جو نت نئے بدلتے حالات کا مقابلہ نہیں کرسکتیں وہ فنا ہوجاتی ہیں۔
یہ تھا چارلس ڈارون کا نظریہِ ارتقاء یعنی مشہور زمانہ “سروائیول آف دی فٹسٹ” تھیوری جسے ہمارے لوگوں نے بندر کے انسان بننے تک محدود سمجھا اور آج خود بندروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جیکسن براؤن نے لکھا کہ اگر آپ ہوا کا رخ موڑنے پر قدرت نہیں رکھتے تو اپنی کشتی کو اس کے مطابق ایڈجسٹ کرلیں لیکن یہ ایڈجسمنٹ کرنی کیسے ہے یہ تعین کرنا بھی ضروری ہے۔
آج ملکی حالات اور طوفانی رفتار سے بڑھتی مہنگائی سے ہر کوئی پریشان ہے مگر سوائے حکومت کو کوسنے اور سیاسی رسہ کشی میں گالم گلوچ کے کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ احتجاج کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے مگر احتجاجوں سے پیٹ تو نہیں پلتے، گھر میں بچے بھوکے بیٹھے ہوں تو فرسٹریشن زدہ دماغوں کو خودکشی کے سوا کوئی حل نہیں سوجھتا۔
ہر کوئی اس مسیحا کے انتظار میں ہے جو آ کے جادو کی چھڑی گھمائے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا، ان بدترین حالات میں آپ ایک نظر ڈارون کی “سروائیول آف دی فٹسٹ” تھیوری ذرا غور سے پڑھیں تو امید ہے کہ دماغ کی بتی جلے گی کہ ان نامساعد حالات میں وہی سروائیو کرسکتا جو اپنا مسیحا خود بننے کا فیصلہ کرلے۔
وہ زمانے چلے گئے کہ ایک کماتا تھا تو دس کھاتے تھے، اس دور پر آشوب کا تقاضہ تو یہ ہے اگر گھر میں چار بالغ افراد ہیں تو چاروں آمدن میں اپنا حصہ ڈالیں ہر کسی کو کمانا چاہیئے اور صرف کمانا ہی نہیں بچانے پر بھی فوکس کرنا ہوگا، جیسے کہ اگر کوئی ایک وقت میں دو روٹیاں کھانے کا عادی ہے تو اسے ایک روٹی پر گزارا کرنا چاہیئے۔
مقابلہ بازی کے رحجان سے نکل آئیں کہ فلاں نے یہ چیز لی تو ہم کیوں نہ لیں، خاص طور پر مڈل کلاس میں یہ بہت ہوتا ہے بھلے ہر مہینے کے آخر میں ادھار کی نوبت آجاتی ہو مگر ہر ویک اینڈ پر آؤٹنگ، شاپنگ اور ہوٹلنگ ضرور کرنی ہے۔
فلانے رشتے دار یا ڈھمکانے قرابت دار کے بچے بیکن ہاؤس میں پڑھتے ہیں تو ہم کیوں پیچھے رہیں، ہمارے بچے کیوں ایلیٹ ماحول کے لئے ترسیں، ہم نے بھی ضرور کھینچ تان کے اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو ہائی اسٹینڈرڈ سکولز میں بھیجنا ہے۔
واللہ! یہ مائنڈ سیٹ بہت سارے گھرانوں میں مسائل کی جڑ ہے، لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اگر وہ اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلائیں تو زندگی کتنی آسان ہوسکتی ہے۔ گھر کے اندر پانچ ہزار کا ثناسفینہ کا سوٹ پہنیں یا آٹھ سو کا، عام دکان سے لیا کپڑا پہن لیں کوئی فرق نہیں پڑتا، قطعی کوئی فرق نہیں پڑتا۔
آپ کا بچہ پچیس ہزار ماہانہ والے سکول میں پڑھے یا دو ڈھائی ہزار والے سکول میں، تربیت آپ کی اپنی ذمہ داری ہی رہے گی۔ نکل آئیں اسٹیٹس کے کامپلیکس سے، مہنگائی اگر آپ کا مسئلہ ہے تو آپ کو سٹیٹس کانشس ہونا قطعی سوٹ نہیں کرتا، ایک اچھا لائف سٹائل وہ نہیں جس میں تمام لگژریز حاصل ہوں بلکہ وہ ہے جو آپ کو بےسکون نہ کرے۔
گھر کا سکون ہر چیز سے اہم ہے اور اس کے لئے قناعت کا سبق پڑھنا ہوگا، جو حاصل ہے اس پر شکر اور مزید کے لئے محنت کے ساتھ ساتھ صبر بھی کرنا ہے۔ باقاعدہ پلاننگ سے اپنے اخراجات کنٹرول کیئے جائیں تو آسانی ہوسکتی ہے، ایک لسٹ بنائیں کہ کونسی چیزیں آپکا سب سے زیادہ بجٹ کھا رہی ہیں اور ان کو کیسے مینیج کیا جاسکتا ہے مثال کے طور پر اگر گھر کا کرایہ زیادہ ہے تو کسی دوسری جگہ چھوٹا گھر دیکھ لیں جہاں کرایہ کم ہو۔
بلز زیادہ آ رہے ہیں جو کہ لازماً آئیں گے چاہے آپ بجلی گیس استعمال کریں نہ کریں حکومت نے آپ پر ٹیکسوں کا بوجھ لادا ہوا ہے اور آپ سے ہی نچوڑ کر ملکی خزانہ بھرا جاتا ہے لہذا ٹیکسوں سے نجات تو ممکن نہیں مگر کم سے کم یونٹس کا استعمال یقیناً ممکن ہے اور یہ آپکے اختیار میں ہے، خود کو پتھر کے دور میں تصور کرتے ہوئے بجلی گیس کا استعمال کم سے کم کریں اور گروسری یعنی ماہانہ راشن لسٹ بنا کر ایک بار خریدیں، روز روز خریداری بھی گھریلو بجٹ کو خسارے میں لے جاتی ہے۔
سروائیول کی اس جنگ میں آمدن بڑھانے اور اخراجات کم کرنے کے ساتھ ساتھ بچت پر توجہ دینے کی بھی ازحد ضرورت ہے کیونکہ آنے والا وقت اس سے بھی مشکل ہونے والا ہے