9 مئی کے واقعات کو جواز بنا کر تحریک انصاف خیبر پختونخوا کی صوبائی صدارت سے استعفے کے بعد پرویز خٹک بظاہر سیاسی منظر نامہ سے غائب ہیں لیکن جوڑ توڑ کے ماہر اس سیاستدان کی دارالحکومت میں واقع رہائش گاہ صبح شام سیاسی بیٹھکوں سے آباد ہے۔
نوشہرہ سے روزانہ درجنوں سیاسی کارکن اور منتخب یونین کونسل کے منتخب اراکین اسلام آباد آکر گھنٹوں پرویز خٹک سے ملاقاتیں کرتے ہیں، جنہیں ان کے خاص حلقہ میں PK کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ پس پردہ پی ٹی آئی کے سابق اراکین اور رہنماؤں سے بھی ان کے رابطے جاری ہیں۔
پرویز خٹک کی ملاقاتوں کے اندرونی احوال سے واقف کار بتاتے ہیں کہ پرویز خٹک تحریک انصاف کے ’ووٹرز اور سپورٹرز‘ دونوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں، اور قریں قیاس یہی ہے کہ وہ عنقریب صوبائی سطح پر ایک اور سیاسی جنم لیں گے۔
پرویز خٹک سے سابق اراکین کے رابطے
خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے دو سابق اراکین اور ایک پارٹی رہنما نے پرویز خٹک کی جانب سے رابطوں کی تصدیق کی ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے ایک سابق رکن کے مطابق کچھ دن قبل پرویز خٹک نے ان سے فون پر تفصیلی بات کی تھی۔
’وہ (پرویز خٹک) صوبائی سطح پر ایک جماعت کی تشکیل میں سرگرم ہیں اور اس ضمن میں انہوں نے مجھے بھی دعوت دی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ سابق اراکین کوساتھ لے کر الیکشن میں حصہ لیا جائے اور کامیابی کی صورت میں اتحادی حکومت بنائی جائے۔‘
مذکورہ سابق رہنما کے مطابق، پرویز خٹک کی سوچ اقتدار ہے اور سر دست وہ فقط اسی پہلو سے سیاسی سوچ بچار میں مشغول ہیں۔ ’وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ایم کیو ایم دوبارہ متحد اور منظم ہو گئی اسی طرح پی ٹی آئی بھی اس مشکل وقت سے نکل جائے گی لیکن خان صاحب حالات کو نہیں سمجھتے۔‘
مزید پڑھیں
نئی جماعت یا گروپکی تشکیل میں مصروف
مقتدر حلقوں سے قربت رکھنے والے پرویز خٹک سے متعلق عمومی رائے ہے کہ وہ پارٹی عہدہ چھوڑنے کے بعد سیاسی مستقبل کے بارے میں مشاورت کر رہے ہیں۔ سینئیر صحافی اسماعیل خان سمجھتے ہیں کہ پرویز خٹک نے اپنی علیحدہ سیاسی جماعت کی تشکیل مکمل کر لی ہے۔
سوشل میڈیا پر اسماعیل خان لکھتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے پرویز خٹک ’الیکٹیبلز‘ اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں، جن میں زیادہ تر کا تعلق ایسی جماعت سے ہے جو جلد ان کی سابقہ کہلائے گی۔ ان کا ہدف صوبے میں اگلی حکومت بنانا ہے، جو مشکل تو ہے لیکن نا ممکن نہیں۔
سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی لحاظ علی کا بھی خیال ہے کہ پرویز خٹک صوبائی سطح پر ایک نئی جماعت کی تشکیل میں مصروف ہیں۔ ‘پرویز خٹک صوبائی سطح کا سیاست دان ہے، اور ہدف بھی صوبہ ہی ہے، پرویز خٹک ایک شاطر سیاست دان ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ووٹرز عمران خان کے ساتھ ہے اور موجودہ حالات میں وہ کیس کرنا چاہتے ہیں۔‘
لیکن تجزیہ کار محمود جان بابر دونوں صحافیوں سے اتفاق نہیں کرتے، ان کا خیال ہے کہ موجودہ حالات کسی سیاسی جماعت بنانے کے لیے سازگار اور موافق نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پرویز خٹک پی ٹی آئی میں ہی کوئی گروپ بنا سکتے ہیں جس کا شاید انہیں فائدہ بھی ہو۔
بلدیاتی سیاست سے صوبائی وزیر تک کا سفر
صحافی لحاظ علی کے مطابق پرویز خٹک نے، جو بنیادی طور پر سرکاری ٹھیکہ دار ہیں، اپنی سیاست کا آغاز 1980 کی دہائی میں نوشہرہ کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے کر کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ 11 سال رہے، پھر شیرپاؤ گروپ کے ساتھ ہولیے۔ 30 سال کی سیاست میں صوبائی وزیر کے عہدے تک پہنچے۔
لحاظ علی کے مطابق جوڑ توڑ کے ماہر سمجھنے جانیوالے پرویز خٹک گیارہ سال سے زیادہ کسی جماعت میں نہیں رہے اور اب تقربیا گیارہ سال کے بعد تحریک انصاف کو تقریباً الوداع کہہ چکے ہیں۔
پی ٹی آئی میں شمولیت نے قسمت بدل دی
پرویز خٹک نے 2011 میں تحریک انصاف کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ہی شمولیت اختیار کی تھی اور 2013 کے صوبائی انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعلی بھی منتخب ہو گئے۔ صحافی لحاظ علی سمجھتے ہیں کہ پرویز خٹک کی کامیابیوں کی وجہ صرف پی ٹی آئی اور عمران خان سے قربت رہی ہے۔ ’وہ بلدیاتی یا پھر صوبائی سطح کی شخصیت ہیں، عوامی بالکل نہیں۔‘
سیاسی یا خاندانی مفادات کا تحفظ
تحریک انصاف کی جانب سے موروثی سیاست کی شدید مخالفت اور اس ضمن میں دیگر سیاسی جماعتوں پر تنقید کے باجود پرویز خٹک کےگھر میں شاید ہی کوئی رہ گیا ہو جو اقتدار کے مزے نہ لیے ہو۔ صحافی لحاظ علی کے مطابق عمران خان سے قربت کے باعث کوئی ان کے خلاف بول نہیں سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز خٹک نے بھائی کو صوبائی وزیر، بیٹے کو ایم پی اے، داماد اور بھابی کو ایم این اے اور چھوٹے بیٹے کو تحصیل ناظم بنایا۔
کیا خیبرپختونخوا ہدف ہوگا؟
تجزیہ کار محمود جان کا خیال ہے کہ پرویز خٹک کی صوبے میں حکومت کے قیام کی خواہش ہو سکتی ہے، جس کے لیے وہ گروپ بنا کر ووٹ لینے کی کوشش کریں گے۔ ‘وہ کچھ ایسا کریں گے جو پی ٹی آئی کے ووٹرز کو منظور ہو۔ اس وقت نوجوان ووٹرز عمران خان کے ساتھ ہے، جو کسی کی بات سننے کو تیار نہیں اور انہیں قائل کرنا کافی مشکل ٹاسک ہو گا۔‘
پی ٹی آئی پرویز خٹک کے لیے اہم ہے یا پھر اس کے برعکس؟
2013 میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو مشکل سیاسی حالات میں کامیابی سے بڑے منصوبے اور اصلاحات متعارف کرانے پر پرویز خٹک کو پی ٹی ائی میں ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ اسی وجہ سے صوبے میں پرویز خٹک کے خلاف آواز بلند کرنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں۔
صحافی لحاظ علی کہتے ہیں پرویز خٹک اپنے مخالفین کو عمران خان سے دباؤ میں لاتے تھے اور اسی وجہ سے اکثر ان سے ڈرتے تھے۔ ’پی ٹی آئی اور عمران خان کے بغیر پرویز خٹک کی اہمیت کچھ نہیں اور وہ صرف نوشہرہ تک ہی محدود ہوں گے۔ تجزیہ کار محمود جان بھی لحاط علی سے اتفاق کرتے ہیں۔
محمود جان کے مطابق پرویز خٹک نوشہرہ میں بہت مقبول ہیں، اور اپنے حلقے سے جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن مرکزی سطح پر پی ٹی آئی کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں ہیں۔
‘میرا باپ چار پائی پر بھی ہوتب بھی طاقت ور ہے’
نوشہرہ میں اب بھی پرویز خٹک کو وزیر اعلی جتنی اہمیت و پذیرائی حاصل ہے اور ان کے خاندان والے ان کے نام پر ہی سیاست کر رہے ہیں۔ 9 مئی کے بعد پرویز خٹک منظر عام سے غائب ہیں، اس دوران ان کے بیٹے اور تحصیل ناظم اسحاق خٹک کی ویڈیو سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے جس میں وہ اپنے باپ کے نام پر سرکاری حکام کو دبانے کی کوشش کرتے نظر آرہے ہیں۔
وائرل ویڈیو میں اسحاق خٹک کو ٹی ای او سمیت دیگر افسروں کو سرکاری دفاتر کو تالا لگا دینے کا طنزیہ مشورہ دیتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک موقع پر وہ کہتے ہیں : کوئی یہ نہ سمجھے کہ پرویز خٹک سیاسی طور پر کمزور ہو گئے ہیں، میراباپ اگر چارپائی پر بھی ہو تو بھی طاقت ور ہے۔
پرویز خٹک کو نئی جماعت یا دھڑا بنانے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟
نو مئی کے بعد ملک میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ جس سے خیبر پختونخوا میں رہنما منظر عام سے روپوش ہو گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہو گیا۔ تجزیہ کار صحافی لحاظ علی کے مطابق پرویز خٹک اس حالات میں الیکشن میں حصہ لینے کے لیے راستہ نکالنے کے لئے سر گرم ہے۔ اگر اس حالات میں اکتوبر میں انتخابات ہوتے ہیں تو تحریک انصاف کے امیدوار شاید نکل نہیں سکیں گے۔
لحاظ علی کہتے ہیں کہ ان حالات میں پرویز خٹک پی ڈی ایم کے خلاف narrative بنانا چاہتے ہیں تاکہ اس کے لئے وہ دھڑا یا صوبے کی سطح پر جماعت بنا سکتے ہیں تاکہ پی ڈی ایم کا مقابلہ کر سکیں اور انہیں پی ٹی آئی کا ووٹ بھی مل سکے