چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ایک بہترین معاشرے کے قیام کے لیے خواتین کو با اختیار بنانا ہوگا، فیصلے لینے میں خواتین کو آزادی حاصل ہونی چاہیے۔
سپریم کورٹ میں آبادی اور وسائل میں توازن سے متعلق کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ خوشی کی بات یہ ہے کہ سندھ اور خیبر پختونخوا میں خواتین کے حقوق کے لیے قانون سازی بھی ہو چکی ہے، آزاد کشمیر کو بھی اس میں شامل کیا جائے اور معاشرے کی بہتری کے لیے خواتین کو با اختیار اور فیصلہ سازی میں آزادی حاصل ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر خواتین اور آبادی سے متعلق پالیسیوں کے نفاذ میں حکومتیں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں تو فوری عدالتوں سے رجوع کریں۔ خواتین کو بااختیار بنانے کی پالیسی سے متفق ہیں، خواتین کو بنیادی فیصلے کرنے کے لیے آزادی حاصل ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ریاست اور معاشرے کے اندر اعلیٰ عہدوں پر باصلاحیت خواتین موجود ہیں، جس مسئلے کے بارے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں خواتین اس معاملے میں باصلاحیت ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کانفرنس کا انعقاد جس مقصد کے لیے کیا گیا اچھی بات یہ ہے کہ حکومت اس سے بخوبی آگاہ ہے، پالیسیاں موجود ہیں اور حکومت اس کا شعور رکھتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ایک ضعیف العمر پرانے خیالات رکھنے والی شخصیت کا مالک ہوں، عدالتیں نہ پالیسیاں بناتی ہیں نہ ہی قانون بناتی ہیں، صرف قانون پر عملدرآمد کے لیے ہدایات جاری کر سکتی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم بنیادی حق نہیں لیکن اسے بنیادی حق کے ساتھ منسلک کیا جاسکتا ہے، کانفرنس کی سفارشات معاشرے کی بہبود کے لیے ہیں۔ ملک بھر سے آئے کانفرنس کے شرکا ایک پیغام لے کر اپنے علاقوں میں جائیں گے۔
انہوں نے قرآن کی آیات پڑھتے ہوئے کہا کہ اگر ہم معاشرے کی بہتری کے لیے پر عزم ہوں تو اللہ ہمیں اپنی منزل تک ضرور پہنچائے گا۔ اس کے لیے ہمارے دل اور دماغ میں مثبت سوچ کا ہونا ضروری ہے۔ صحت، تعلیم اور خود مختاری خواتین کے بنیادی حقوق ہیں۔