3 اگست وہ تاریخی دن ہے جب گرین کارڈ جیسی نعمت کی بنیاد قائم ہوئی۔ جی ہاں، آج کی ہی وہ مشہور تاریخ ہے جب سن 1492 میں کرسٹوفر کولمبس نے اپنا وہ سفر شروع کیا۔ جس کی وجہ سے باربی فلم پاکستان کے صوبے پنجاب میں بین ہوگئی۔ آپ سہی پہنچے ہیں۔
کولمبس نے اپنی زندگی کا وہ سفر شروع کیا جس کی وجہ سے امریکہ دریافت ہوا۔ اگر آپ یہاں اِس امید پر آئیں ہیں کہ میں امریکہ کی تاریخ پر روشنی ڈالنے لگی ہوں تو آپ غلط جگہ آئیں ہیں۔ یہ کولمبس اور پاکستان کی کہانی ہے۔ کولمبس نے اس وقت سوچا بھی نا ہو گا کہ امریکہ کے ہونے سے دنیا پر کس قسِم کے اثرات مرتب ہوں گے، خاص طور پر پاکستان پر۔
مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر اتنا ہی فخر ہے جتنا آپ کو پاکستانی ٹیم کی موہالی سیمی فائنل میں پرفارمنس پر فخر ہے۔ ایک تلخ حقیقت جس سے آپ جان نہیں چھڑا سکتے۔ جب تک کہ آپ کسی طرح امریکہ کا گرین کارڈ نا لے لیں۔
زندگی میں کوئی بھی کارڈ چاہے وہ ڈیبٹ کارڈ ہو یا کریڈٹ کارڈ، پرانے وقتوں کا ڈائل اپ کارڈ ہو یا سپر کارڈ، کوئی بھی کارڈ کہہ لیں، اس کی کوئی اوقات نہیں رہ جاتی جب گرین کارڈ ہو۔ جسے بھی بہتر زندگی کی تلاش کی لت لگی، وہ کسی طرح امریکہ پہنچ ہی گیا۔
امریکہ کے دنیا پر جو اثرات ہوئے وہ ایک الگ بحث ہے لیکن پاکستان پر اِس کا ایک خاص اثر یہ ہے کہ جو بھی پاکستانی امریکا میں اک مہینہ گزار کے آیا، اس کو فوراََ اُردو بھول گئی اور اس کا انگریزی لہجہ فوراََ امریکی ہو گیا۔ زیادہ تر پاکستانی جو امریکا سے ہو کر آئے یا آتے ہیں وہ پاکستان کا ایسے ذکر کرتے ہیں کہ جیسے وہ رہتے امریکا میں ہیں اور پاکستان چھٹیوں پر آئے ہوئے ہیں۔
اور تو اور جن لوگوں کا جہاز صرف امریکا کے اوپر سے گزر جاتا ہے وہ بھی اپنے فیس بک پر اسٹیٹس ڈال دیتے ہیں کے ’میں امریکہ میں ہوں‘۔ کیا آپ نے زندگی میں کسی بھی چیز کا ایسا اثر دیکھا ہے؟ نہیں دیکھا ہو گا۔ میں مان ہی نہیں سکتی۔
کولمبس کے امریکا نے نا صرف ہمیں اپنا آپ بھلانے میں مدد کی بلکہ اس کے امریکہا نے ہمیں اپنے کرتوتوں کا کسی اور کو الزام دینے کا بھی طریقہ بتا دیا۔ پاکستان کی ہر گلی میں اگر 100 لوگ ہیں تو ان میں سے 200 لوگ اکثر کیلے کی بڑھتی قیمت کا الزام امریکا پر لگاتے سنے جائیں گے۔’جو کرا رہا ہے، امریکا کرا رہا ہے‘ ۔ یہ ایک جملہ نہیں، یہ میرے کانوں میں گھلتا ہوا رس ہے۔ بچپن میں جب مجھے کچھ نہیں پتہ تھا تب بھی مجھے یہ پتہ تھا کے جو کرا رہا ہے امریکا کرا رہا ہے اور جو امریکا کا یار ہے وہ غدار ہے۔
منتق اور وجوہات کا مجھ سمیت لاکھوں لوگوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ ہمارا دِل کا درد ڈسکو صرف ایک ہی تھا، امریکا۔ زیادہ گرمی، کم چاول، مرغی کے چھوٹے انڈے، بے اولاد ہونا، سوئی میں دھاگہ سیدھی طرح نا جانا، یہ اور بہت سے ایسے اہم مسئلوں کا ذمہ دار امریکا تھا اور رہے گا! یہ سادگی اور مسئلوں کا آساان حَل، کیا ہمیں کولمبس کے بغیر مل سکتا تھا ؟ نہیں !
ملکی سیاست کے بارے میں آپ کافی پڑھ چکے ہیں، میں کیا ہی کہہ سکتی ہوں۔ جب جب ہمیں امریکا کی ضرورت پڑی یا امریکا کو ہماری ضرورت پڑی، ایک ہی گانا دماغ میں آیا، ’چپکا لے سیاں فیفیویکول سے‘۔ دو جسم ایک جان۔ دو وزیر اعظم، ایک ڈالر۔ ہم لیٹ چکے صنم، تیرے ہوگئے ہیں ہم، تیری قسم۔ یہ ایک نا رکنے والا سلسلہ ہے جس کی جتنی زیادہ گہرائی میں جائیں گے کولمبس اتنا زیادہ آپ کو موہالی کے سیمی فائنل جیسا لگے گا۔
تو یہ تھی کولمبس اور پاکستان کی ایک چھوٹی سی کہانی۔ اِس کہانی کا انجام مشکل ہے کیوں کے اگر کولمبس کا امریکا نا رہا تو ہم اپنی حرکتوں کا الزام کس پر ڈالیں گے؟