ایک نئے نقشہ میں کچھ بھارتی علاقوں کو چین کا حصہ دکھانے پر بھارت نے چین سے سخت احتجاج کرتے ہوئے سرزمینِ بھارت پر چینی دعوؤں کو یکسر مسترد کردیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چین کی وزارت قدرتی وسائل کی جانب سے جاری اس نئے نقشہ میں شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش اور متنازعہ اکسائی چن سطح مرتفع کو چین کا علاقہ دکھایا گیا ہے۔
ہندوستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے کہا کہ ہم ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ ’چین کے اس طرح کے اقدامات صرف سرحدی سوال کے حل کو پیچیدہ بناتے ہیں۔‘
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی چین کے اس دعوے کو ’بے بنیاد‘ قرار دیا ہے تاہم بیجنگ نے ابھی تک سرکاری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
The 2023 edition of China's standard map was officially released on Monday and launched on the website of the standard map service hosted by the Ministry of Natural Resources. This map is compiled based on the drawing method of national boundaries of China and various countries… pic.twitter.com/bmtriz2Yqe
— Global Times (@globaltimesnews) August 28, 2023
ایس جے شنکر نے منگل کو ٹی وی چینل سے گفتگو میں کہا کہ چین نے ماضی میں بھی ایسے نقشے جاری کیے ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان علاقوں کا تعلق جو چین کے نہیں ہیں، جو دوسرے ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ان کی پرانی عادت ہے۔
چین کی جانب سے اس نوعیت کے سرزمین پر دعوؤں کے خلاف بھارت اکثر سخت ردعمل کا اظہار کرتا رہا ہے۔
دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی کا ذریعہ ہمالیہ کے ساتھ ایک متنازع 3 ہزار 440 کلومیٹر طویل حقیقتاً ایک سرحد ہے، جسے لائن آف ایکچوئل کنٹرول یعنی ایل اے سی کہا جاتا ہے۔
تاہم اس سرحدی علاقے کی حد بندی انتہائی ناقص ہے۔ دریاؤں، جھیلوں اور برف کے پہاڑوں کی موجودگی کا مطلب ہے کہ یہ متنازع لائن جگہ جگہ بدل سکتی ہے۔
دونوں طرف کے فوجی کئی مقامات پر مد مقابل ہوتے ہیں، جو کسی وقت بھی کسی بھی قسم کی کشیدگی کو جنم دے سکتے ہیں – آخری بار دسمبر میں جب توانگ قصبے میں سرحد پر ہندوستانی اور چینی فوجیوں کی جھڑپ ہوئی تھی۔
چین کا کہنا ہے کہ وہ پورے اروناچل پردیش کو اپنا علاقہ سمجھتا ہے اور اسے ’جنوبی تبت‘ گردانتا ہے – اس دعوے کو بھارت سختی سے مسترد کرتا ہے۔ بھارت ہمالیہ میں اکسائی چین سطح مرتفع کا دعویٰ کرتا ہے جس پر چین کا کنٹرول ہے۔
رواں برس اپریل میں، دہلی نے چین کی جانب سے اروناچل پردیش میں 11 مقامات کے نام تبدیل کرنے کی کوششوں پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ریاست ہمیشہ ’ہندوستان کا اٹوٹ اور ناقابل تنسیخ حصہ‘ رہے گی۔
بھارت اور چین کے درمیان تعلقات 2020 کے بعد سے خراب ہوئے ہیں، جب دونوں ممالک کے فوجیوں کے مابین لداخ کی وادی گلوان میں ایک مہلک جھڑپ ہوئی تھی۔ یہ 1975 کے بعد دونوں فریقین کے درمیان پہلا مہلک تصادم تھا۔
اس ہفتے بھارتی احتجاج وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کے جنوبی افریقہ میں برکس سربراہی اجلاس کے موقع پر بات چیت کے کچھ روز بعد سامنے آیا ہے، جہاں ایک ہندوستانی عہدیدار کے مطابق دونوں ممالک نے متنازعہ سرحد کے ساتھ تیزی سے تعطل اور کشیدگی کو کم کرنے کی کوششوں کو تیز کرنے پر اتفاق کیا تھا۔